تختِ شہی تھے جس کی نظر میں حقیر سے
اُس کے تعلقات ہیں اب ہر امیر سے
آخر لکیر اپنے فقیروں کو کھا گئی
بس اک فقیر بچ گیا ہٹ کر لکیر سے
اب آپ کربلا کوئی بے شک سجایئے
دھوکہ ہم اور کر نہیں سکتے ضمیر سے
عشق اپنے بیچ ہے فقط اک قدرِ مشترک
نسبت مگر کوئی نہیں مجنوں کی ہیر سے
حکمِ رہائی اس کے لئے موت ہی نہ ہو
بہتر ہے پہلے پوچھ لو اپنے اسیر سے
سارے اساتذہ ہیں مجھے محترم مگر
غالب کا معتقد ہوں محبت ہے میر سے
حیدر نئے ادب میں تو گھائل انہیں کاہوں
رشتہ بہت ہی گہرا ہے آغا وزیر سے
٭٭٭