چاہے وہ بال بچوں والی ہے
دل کی منطق مگر نرالی ہے
اب تماشہ تو خود بخود ہوگا
بات خود آپ نے اُچھالی ہے
موت کو چھُوکے دیکھنا ہے ذرا
زندگی اپنی دیکھی بھالی ہے
رُوح میری بھی ہے کھرا سونا
تیری دنیا اگر کٹھالی ہے
دُکھ تو بے شک بہت ہوا لیکن
اُس کی چاہت تو آزما لی ہے
دوستی میری بے مثال ہے تو
دُشمنی بھی مِری مثالی ہے
بیج بویا تھا پیار کا حیدر
لگتا ہے فصل پکنے والی ہے
٭٭٭