ادھیڑ عمر تمناؤں کو جواں کرنا
کسی کا پھر دلِ ناداں کو خوش گماں کرنا
وہ ایک کشتی پہ اپنی رفاقتوں کا سفر
اور اس کا سر کے دوپٹے کو بادباں کرنا
وہ پہلے روکنا اُس ساحلِ مراد کا اور
پھر اس کا خود ہی مجھے خود پہ بیکراں کرنا
وفورِ شوق میں اُس خود سپردگی کے سبب
وہ راہِ عشق میں اِس جان کا زیاں کرنا
وہ اپنا ملنا، وہ خاموشیاں وہ یکجائی
وہ بے زبانوں کو پھراپنا ہم زباں کرنا
وہ اس کے جسم کی دلکش عنایتِ پیہم
وہ دن میں قوسِ قزح، شب میں کہکشاں کرنا
وہ ٹوٹ ٹوٹ کے آنا ہمارا چاہت میں
اور اس کا ویسے ہی وہ چشم مہرباں کرنا
ہوئے ہیں ایک تو اب ایک ہی رہیں دونوں
کسی کو بھی نہ مِرے اپنے درمیاں کرنا
وصالِ یار کا احوال بس کرو حیدر
زیادہ اس سے نہ کچھ اور اب بیاں کرنا
٭٭٭