دکھوں کو جھیل جانا آگیا ہے
ہمیں بھی مسکرانا آگیا ہے
سلگتے تھے کبھی چُپ چاپ خود میں
مگر اب جگمگانا آگیا ہے
نصیبِ عاشقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر!
جبیں تک آستانہ آگیا ہے
بہت بَن ٹھَن کے اب ملنے لگے ہو
تمہیں دِکھنا، دِکھانا آگیا ہے
اُٹھا لو تِیر اب نظروں کے پیارے
کماں تک خود نشانہ آگیا ہے
کھِلا پہلے گلاب ایسا بدن اور
اب اُس کو لہلہانا آگیا ہے
وہ سچ مچ آگیا ہے دسترس میں
کہ جھولی میں خزانہ آگیا ہے
مہک جو دے اُٹھے اِس عمر میں بھی
ہمیں وہ گُل کھلانا آگیا ہے
یہ کس چکر میں حیدر پڑ گئے ہو
یہ تم پر کیا زمانہ آگیا ہے
٭٭٭