جس کام میں بھی لگ گیا حد سے گزر گیا
اِتنا ہوا خراب کہ گویا سُدھر گیا
ہونے لگا ہے پیار اُسی جلد باز سے
جوتوں سمیت جو مِرے دل میں اُتر گیا
بیٹھا ہوا تھا چھُپ کے جو اک ڈر کے روپ میں
تم کھُل گئے تو ذہن سے اُس ڈر کا شر گیا
غالب کے بعد آنا تھا اِس کو اِدھر مگر
سیلابِ عشق تو یہیں آکر ٹھہر گیا
اُس کے کرم نے کی تھیں ذرا یونہی شوخیاں
ہم نے سمجھ لیا کہ دعا سے اثر گیا
”دستار والے“ خود کو بچا کر نکل گئے
ہم ”ننگِ سر“ تھے اس لئے اپنا ہی سرگیا
پریوں کے جمگھٹے میں جو اِندر بنا رہا
عمرِ عزیز! وہ ترا حیدر کدھر گیا
٭٭٭