حکمرانی کی تمناّ اتنی خود سر ہوگئی
مل نہ پائی بادشاہت، بادشہ گر ہوگئی
انتہائے تِیرگی سے ہوگیا سورج طلوع
پیاس اتنی بڑھ گئی کہ خود سمندر ہوگئی
دوستوں کی خیر خواہی کا گُنہ ایسا ہوا
پڑ گیا بھاری گُنہ، نیکی برابر ہوگئی
روکھے پھیکے پَن کی اب عادت بنانی ہے ہمیں
اتنے میٹھے ہوگئے تھے ہم کہ شوگر ہوگئی
ایک حسرت دل کے گھر میں بس گئی ہے آن کر
ایک خواہش جب سے دل کے گھر سے بے گھر ہوگئی
جبر کے کرب و بلا کی خاک میں رُلتی ہوئی
زندگی بھی حضرتِ زینبؓ کی چادر ہوگئی
جب یزیدِ عصر کے لشکر سے باہر آگئے
حُر سے نسبت اپنی بھی تھوڑی سی حیدر ہوگئی
٭٭٭