شوق جو سود یا زیاں کے تھے
سلسلے وہم اور گماں کے تھے
طُور سے بڑھ کے اپنا حال ہوا
صرف اک بار مَن میں جھانکے تھے
جانے کیسے یہاں چلے آئے
ہم کسی دوسرے جہاں کے تھے
رنگ سارے نظر کا تھے جادو
اور سب ذائقے زباں کے تھے
قسمتوں نے ملا دیا ورنہ
تم کہیں کے تھے، ہم کہاں کے تھے
داستاں گو کی ذات سے اُبھرے
جتنے کردار داستاں کے تھے
آج تو کُھل کے ہنس دیئے حیدر
دل کے زخموں کے جتنے ٹانکے تھے
٭٭٭