آپ کو بھی درپئے آزار ہونا تھا، ہوئے
اور ہم نے زیر بارِ یار ہونا تھا، ہوئے
تہمتوں کے اور بہتانوں کے اعزازات کو
جب ہمارے ہی گلے کا ہار ہونا تھا، ہوئے
لاکھ صحرا اور سمندر بچھ گئے تھے راہ میں
اِن فقیروں نے جہاں سے پار ہونا تھا، ہوئے
خواب کی دنیا میں کتنی دیر تک رہتے بھلا
اک نہ اک دن تو ہمیں بیدار ہونا تھا، ہوئے
عشق میں تکریم بھی اپنا مقدر تھی، ہوئی
اور پھر رُسوا سرِبازار ہونا تھا، ہوئے
یہ بھی آنا تھا مقام آخر تمہاری چاہ میں
ہم نے اپنے آپ سے بے زار ہونا تھا، ہوئے
ذہن و دل کی جنگ میں خاموش رہتے کس طرح
خود سے حیدر برسرِ پیکار ہونا تھا، ہوئے
٭٭٭