صحراؤں کے دامن میں سمندر نہیں رکھا
اب آنکھوں میں ایسا کوئی منظر نہیں رکھا
غم ہو یا خوشی ہو، وہ محبت ہو کہ نفرت
ہم نے کوئی جذبہ بھی چھپا کر نہیں رکھا
دیکھو مجھے اِس حال میں مت چھوڑ کے جانا
دل پر ابھی میں نے کوئی پتھر نہیں رکھا
رہ جائے بھرم یاروں کی خوش قامتیوں کا
خود کو کبھی یاروں کے برابر نہیں رکھا
گو عقل کی ہم فہم و فراست کے ہیں قائل
لیکن اِسے دل کا کبھی افسر نہیں رکھا
انمول رتن بننے سے بے مول ہی اچھے
سر جبر کی سرکار کے درپر نہیں رکھا
لے آئے ہیں ہاتھوں پہ اٹھائے ہوئے حیدر
اوروں کی طرح شانوں پہ یہ سر نہیں رکھا
٭٭٭