اِسی خموشی کو تیرا جواب ہونا ہے
ہمارے صبر نے سیلِ چناب ہونا ہے
خدا کے نام پہ تم نے بہت خدائی کی
تمہارے جبر کا اب احتساب ہونا ہے
خراب کرلی جوانی تمہاری چاہت میں
اب اِس سے بڑھ کے بھلا کیا خراب ہونا ہے
ابھی کچھ اور بھی الزام وہ لگائے گا
پھر اس کے بعد اُسے آب آب ہونا ہے
شمار زخموں کا شاید وہیں پہ ہو پائے
سُنا ہے اگلے جہاں میں حساب ہونا ہے
جو کھولنے لگیں بابِ قبول خود جاکر
اُنہِیں دعاؤں کو اب مستجاب ہونا ہے
کئی برس ابھی گذریں گے ہجر کے حیدر
حضورِ مرگ میں تب باریاب ہونا ہے
٭٭٭