ذرا دل کے پتھر کو پانی کرو
فقیروں پہ بھی مہربانی کرو
سدا حُسن قائم تمہارا رہے
دلوں پہ سدا حکمرانی کرو
گلابوں کا تحفہ بھی اچھا لگا
لبوں سے بھی کچھ گُل فشانی کرو
ہمیشہ ہی انکار اچھا نہیں
کبھی بات میری بھی مانی کرو
سدا دولتِ حُسن رہتی نہیں
اسے میرے تک آنی جانی کرو
مرے سبز باغوں میں آؤ کبھی
کبھی سیرِ جاں، یار جانی کرو
(ق)
ثبوتِ وفا بھی دکھاؤ اسے
فدا اس پہ باقی جوانی کرو
وہ حیدر بہت بھولی بھالی سی ہے
اُسے تھوڑی تھوڑی سیانی کرو
٭٭٭