محبت کا مزہ ہے ہجر میں بے تاب ہونے تک
بہاریں دل کی ہیں دُکھ درد سے سیراب ہونے تک
ابھی کچھ دُھوپ چمکی ہے، ابھی کچھ برف پگھلی ہے
تمہاری عمر کا دریا چڑھے سیلاب ہونے تک
ذرا آنکھیں چھلکنے دو، ابھی شعلے بھڑکنے دو
تم اپنے عشق کے داغوں کی آب و تاب ہونے تک
مناسب ہے کہ کوئی داستاں اپنی بنا ڈالو
نہیں تو سوہنی کا ساتھ دو غرقاب ہونے تک
زمانے کی حقیقت جاننے سے فائدہ؟‘ ویسے
حقیقت جان لو گے واقفِ احباب ہونے تک
تمہاری نیند میں ہم زندگی اک اور جی لیں گے
ہمیں آنکھوں میں بھرلینا ہمارے خواب ہونے تک
چراغِ نیم شب حیدر ابھی جلتے ہی رہنا ہے
سحر ہونے تلک، ظلمت سے فتح یاب ہونے تک
٭٭٭