جتنے دل والے تھے، جتنے بانکے تھے
اہلِ ستم نے اک لاٹھی سے ہانکے تھے
کچھ پہلے عشاّق کا ہی اعزاز نہیں
دشتِ جنوں کی خاک تو ہم بھی پھانکے تھے
چاند، ستارے آتے رہتے تھے کتنے
جب تک مجھ میں منظر کا ہکشاں کے تھے
اب الزام لگاتے ہو بِک جانے کا
قیمت میری کل تک تم بھی آنکے تھے
کیوں جھوٹی تقدیس کی باتیں کرتے ہو
کچی عمر میں تم بھی تانکے ، جھانکے تھے
آخر آنے تھے اک دن تو جسم تلک
پیارے جتنے روگ تمہاری جاں کے تھے
جرمن احسانات سبھی برحق حیدر
فیض مگر کچھ اور ہی دھرتی ماں کے تھے
٭٭٭