ناز و غرور آپ کو تیر و کمان پر
ہم کو بھی اعتماد ہے اپنی اُڑان پر
پاؤں زمیں پہ اُن کے بھی ٹکتے نہیں کہیں
دل کا دماغ بھی ہے اِدھر آسمان پر
یہ سوچ لیجئے پہلے یہ بازارِ عشق ہے
سودا تو مل ہی جائے گا پر نقدِ جان پر
لہجے کی وہ مٹھاس بھی کیا جانے کیا ہوئی
اندر کا زہر آگیا اُن کی زبان پر
تذلیل تو ہماری فقط اس لئے ہوئی
آئے نہ حرف پھر کبھی جھوٹوں کی شان پر
اب آگے رخ یہ کونسا کرتی ہے اختیار
حیدر یہ منحصر ہے مری داستان پر
٭٭٭