وزیر آغا کی ”کلیات “1946ءسے 1990ءتک ان کے شعری سفر کے روداد ہے۔ سات شعری مجموعوں پر مشتمل 760صفحات کی اس کلیات کا نام وزیر آغا نے ”چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل“ رکھا ہے ” کلیات“کے ص4پر یہ دو اشعار درج ہیں:
چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل
ڈار جھکی جب قازوں کی
عکس اُگے پانی کے اندر
دُھول اڑی آوازوں کی
یہ اشعار ”کلیات“ کے نام کی وجہ تسمیہ کافی حد تک بیان کر دیتے ہیں۔ تاہم میرے نزدیک اس نام سے وزیر آغا کا ادب کے ساتھ عشق ظاہر ہوتا ہے اور اس کے ثبوت میں ،میں ان کی ایک پُرانی نظم ”عشق“ کا حوالہ دیتا ہوں:
اک پتھریلی چُپ نے سینہ تان لیا
دل نے دستک دے کے کہا: پہچان لیا؟
یہی ہے تیری منزل، تونے جان لیا؟
منزل بھی یہ کیا منزل ہے، سانس نہ لو
بات کرو پر بات کے ساتھ آواز نہ ہو
موتیوں ایسے نیر گریں، جھنکار نہ ہو
ہنستی چال! چہکتی چھاگل! ہوش کرو
دل پاگل ہے، پاگل کی مت بات سنو
اس گہرے سنّاٹے میں خاموش رہو
عشق کا یہ سارا منظر نامہ، یہ ساری کیفیات وزیر آغا کی پوری شاعری میں صورت بدل بدل کر نظر آتی ہیں۔ ان کی ابتدائی شاعری میں یہ ” عشق“ کمزور طبقوں سے ہوا ۔ ”دھرتی کی آواز“ ”ننھے مزدور “ اور ”شبِ یلدا“ اسکی بہترین مثالیں ہیں۔ کمزور اور مظلوم طبقے کی حمایت میں وزیر آغا نے کہیں بھی سیاسی لیڈر بننے کی کوشش نہیں کی اور اپنی شاعری کو شاعری کی ارفع سطح پر رکھا۔ آگے چل کر وزیر آغا کا ”عشق“ پورے انسان کے لیے ہوگیا ۔ وہ انسانیت کی بقاکے لیے فکر مند ہوئے۔ ایٹم کی ہلاکت خیزیوں کا ہمارے ادیبوں نے بہت کم ادراک کیا ہے ۔وزیر آغا ایٹمی ہتھیاروں کو پوری انسانیت کے لیئے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔ چرنوبل کا سانحہ ہوا تو انہوںنے اپنی نظم” چرنوبل“ میں برملا کہا:
زمیں کی کوکھ میں ہیجان ہے
آکاش۔۔ اک تانبے کا خیمہ ہے
ہَوا نے بھر لیا ہے اپنا نافہ
اس کے جلتے جسم کی بُوسے
ہوا اب چوکڑی بھرنے کو ہے
اڑنے کو ہے۔۔ پاگل ہوا
اب سبز کھیتوں، ناچتے شہروں میں جائے گی
پھلوں پھولوں، چہکتی کونپلوں کو چُھو کے گزرے گی“
نظم ”پوسٹ مارٹم“ میں تو انہوںنے ایٹمی جنگ کے بعد کا منظر پیش کر کے دنیا کے ارباب اختیار کو ایک طرح سے خوف آور احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔
وزیر آغا کا عشق پوری انسانیت سے ہے اسی لئے وہ ایک طرف تو انسان کے اثبات کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف خوف کے عالم میں بھی معجزوں کی امید رکھتے ہیں۔ انسان کے اثبات کی مثالیں:
”کروڑوں ستارے
شعاعوں کی بے سمت”بے لفظ “ گونگی زباں میں
لرزتے لبوں سے
”نہ ہونے “ کے منکر تھے
ہونے کا اعلان کرتے چلے جا رہے تھے!
فقط اپنے ہونے کا اعلان میں نے کیا
اور بے تاب پھولوں سے، ساون کے جھولوںسے
چڑیوں کی لوری سے
ہر زندہ ہستی کے سانسوں کی ڈوری سے
آواز آئی:
مجھے اپنے ” ہونے “ کا حق الیقیں ہے
میں اعلان کرتی ہوں اپنا!“
(نشرگاہ)
” مجھ کو محسوس ہوتا کہ سارا فلک
ایک ٹوٹا ہوا آئینہ ہے
ستارے
چمکتی ہوئی کرچیاں ہیں
میں خود
ہر ستارے کی کرچی میں ہوں
جیسے کمسن زمیں
اور بوڑھا فلک
اور معصوم تارے
سبھی میرے ہم راز
سب میرے اپنے ہیں
میں
سبز مخمل کی مسند پہ
بیٹھا ہوں
تینوں زمانے
مرے سامنے
دست بستہ کھڑے ہیں“
(آدھی صدی کے بعد)
اپنی ذات سے کائنات تک کا اثبات دراصل انسان کا بلکہ پوری زندگی کا اثبات ہے۔ زندگی جسے شدید خطرات لاحق ہیں لیکن وزیر آغا نے امید کا دامن تھام رکھاہے:
”سنا یہی ہے
پہلے بھی اک با ردُکھی آکاش کی آنکھیں ٹپک پڑی تھیں
پر دھرتی کی آخری ناﺅ
زیست کی بکھری قاشوں کو چھاتی سے لگائے
پانی کی سرکش موجوں پر ناچ دکھاتی
دور افق تک جا پہنچی تھی!
آج مگر وہ ناﺅ کون سے دیس گئی ہے“
(دکھ میلے آکاش کا)
”معاََکھردری، خشک دھرتی کے چہرے پہ بننے لگا
آنے والے زمانوںکا اک نقش پیارا
وہ اک خواب جس کو چمکتے ستاروں،
دہکتے ہوئے تیز رنگوں کا فرغل دلانے کی کوشش میں
ہم تم نے عمریں بتائیں
زمانہ گذارا“
(اک نقش پیارا)
عشق ومحبت کا سلسلہ دائرہ در دائرہ ہوتا ہے۔یہ ذات سے کائنات تک کا سفر ہے اور وہ ذات سے کائنات کے درمیان بھی کئی رشتے آتے ہیں وہ رشتے بھی اسی عشق کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ماں، باپ، بیٹی، بیٹا، بھائی، بہن،بیوی۔۔ یہ سارے رشتے وزیر آغا کی نظموں میں اپنی اپنی محبت کا جادو جگاتے ہیں۔
ماں سے وزیر آغا کی محبت کئی نظموں میں ظاہر ہوتی ہے“ نظم ” ماں“ (پہلاروپ ) ”ماں“(دوسرا روپ)،” ذات کے روگ میں“، ”حادثہ“ ،”جزیرے“،” اندھی کالی رات کا دھبہ“، ” ایک خواب“ ۔۔ان نظموں میں وزیر آغا کی ماں سے محبت کئی خوبصورت رنگوں میں ابھرتی ہے۔ ”آدھی صدی کے بعد“ میں تین جگہوں پر ماں کی محبت بڑی شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ چند نظموں کے اقتباسات سے اس محبت کی شدت اور اس کے اظہار کا اندازہ کیجئے:
”میں آنکھوں کے پانی کو روکوں مگر پانی کیسے رُکے
تب میں چیخوں ، بلاﺅں اسے
گہرے نیلے سمندر کی تہہ میں وہ ہوگی کہیں، کون جانے!
مگر وہ بلاوے کو سن کر ، سمندر کی تہہ سے ابھر کر
مرے پاس آئے، مجھے چھو کے دیکھے
کہے تم کہاں تھے؟
خدارا بتاﺅ کہ تم اتنا عرصہ کہاں تھے؟
مجھے خود سے لپٹائے، مہکی ہوئی گود میں لے کے جھولاجُھلائے
کوئی گیت گائے جو سیّال چاندنی کا چشمہ سا بن کر بہے
دُھندبن کر اُڑے
مجھ کو سورج کی چبھتی تمازت سے محفوظ کردے
کہے اب تو جانے نہ دوں گی تمہیں
اب میں جانے نہ دوں گی تمہیں!“
(ذات کے روگ میں)
” کون بتائے ان بچوں کو
ماں ندّیا کے اند رکب ہے
ماں تو خود اک تیز ندی ہے
ماں اک دُودھ بھری ندّی ہے!“
(حادثہ)
”دھند لکوںکے باریک دھاگوں میں لپٹی ہوئی
مطمئن، بے خبر
میں نے دیکھا۔۔ وہ مجھ پر جھکی تھی
وہ چشمِ حسیں جس کے ہر انگ میں مامتا تھی
مجھے یوں لگا تھا وہ چشمِ حسیں تو مجھے
بس مجھے گھورتی ہے
کسی اور کودیکھنے کی اسے نہ تو فُرصت
نہ ہمت ، نہ خواہش
فقط مرکز ہست کو دیکھتی ہے
مجھے دیکھتی ہے“
(ایک خواب)
”بولو، اپنے ہونٹوں پر کوئی شبد سجاﺅ
منتر جاپو، ہاتھ اٹھا کر پڑھو دعائیں
چہرے دھو کر ، سیدھے ہاتھ کی انگلی کے یا قوت میں جھانکو
بولو تم نے کیا دیکھا ہے؟
صدیوں تم نے اس کو چاہا
اس کی سیمیں انگلی تھامی ، چلنا سیکھا
اس کے ٹھنڈ ے نورانی چھتنار کے نیچے
گھاس پہ لیٹے“
(اندھی کالی رات کا دھبہ)
”دمکتے ابر پارے
اس کے ہونٹوں سے ٹپکتے نرم بوسے ہیں
ہواﺅں کے جواں قاصد جنہیں لے کر بکھرتے ہیں
پہاڑوں، جنگلوں، بے آب صحراﺅں میں پھرتے ہیں
انہیں آواز دیتے ہیں جو ماں کی گود سے نکلے
مگر اب تک نہیں لوٹے
” یہ بوسے ماں نے بھیجے ہیں
یہ بوسے ماں نے بھیجے ہیں“
مگر آواز پر لبیک کوئی بھی نہیں کہتا
ہمیں تو ماں کے خدّوخال تک بھی یاد کیا ہوں گے
ہمیں تو ماں کے ہونے کی خبر تک بھی نہیں شاید
کہ ہم ہجرت کے دن سے آج تک
اپنے ہی جسموں کی گھنی خوشبو میں لپٹے
خوف کی وادی میں بیٹھے ہیں“
(جزیرے)
اس دھرتی کا غالب حصّہ پانی ہے۔ تین حصّے پانی میں خشکی کے جزیرے در اصل ماں کی کوکھ سے جنم لینے والی اولاد ہیں، دھرتی ماں کی نسبت سے وزیر آغا کے ہاں ندی سے سمندر تک ماں کا روپ اختیار کر جاتے ہیں۔ ”اندھی کالی رات کا دھّبہ“ میں بھی ماں کی ہستی موجود ہے شاید اس لئے بھی کہ چاند اسی دھرتی کا بچھڑا ہوا حصہ ہے۔
باپ سے وزیر آغا کی محبت دو صورتوں میں سانے آئی ہے۔ ایک تو والد کی وفات کے معاً بعد صدمے کی کیفیت اور دوسری والد کی یادوں کی باز آفرینی اور ان میں اپنا عکس دیکھنے کی صورت ہے۔ دونوں مثالیں دیکھئے:
”چلی کب ہوا، کب مٹا نقشِ پا
کب گری ریت کی وہ ردا
جس میں چھپتے ہوئے تونے مجھ سے کہا:
آگے بڑھ ، آگے بڑھتا ہی جا
مڑ کے تکنے کا اب فائدہ؟
کوئی چہرہ ، کوئی چاپ ، ماضی کی کوئی صدا۔ کچھ نہیں اب
اے گلّے کے تنہا محافظ! ترا اب محافظ خدا !“
(سفر کا دوسرا مرحلہ)
”سو جب رات ڈھلتی
ہوا تیز چلتی
تو ہم اپنے بابا سے کہتے:
ہمیں بھی کبھی چھنی کچھی سٹیشن دکھاﺅ
سنا ہے وہاں اک پہاڑی نے
پٹڑی پہ دُھونی رمائی ہے
چوتھی، پر اسرار سی کھونٹ کے درپہ
ڈائن بنی، بال کھولے کھڑی ہے
ہمیں ساتھ لے جاﺅ، ڈائن دکھاﺅ
ہمیں چھنی کچھی دکھاﺅ!
ہمیں۔۔ہم سے وعدہ کرو
بابا۔۔وعدہ کرو!“
اور بابا ہمیں اپنے سینے کے چمٹا کے کہتے:
وہاں جا کے تم کیا کرو گے
وہاںکیا دھرا ہے؟“
” اور ہم
منہ پُھلاکر یہ کہتے
نہیںکچھ نہیں جانتے ہم
ہمیں چھنی کھچی دکھاﺅ
ہمیں۔۔ ہم سے وعدہ کرو!۔۔“
” اور پھر ایک دن
اپنے بابا کی انگلی سے چمٹے ہوئے
اپنے قصبے سے گاڑی کے ڈبّے میں داخل ہوئے“
”پھر میں دھرتی پہ اترا
دھڑکتے ہوئے وقت کے آخری بُعد میں آگرا
چھنی کھچی کی پھیلی ہوئی
منجمد قاش پر
برف کی ایک پتی کی صورت کہیں رُک گیا
میں نے دیکھا
مرے چاروں جانب خلا تھا
مرا بابا جانے کہاں رہ گیا تھا
نہ انجن، نہ گاڑی کے ڈبے
دھواں، آگ، رفتار۔ کچھ بھی نہیں تھا۔“
(ٹرمینس)
” وہ بڑ
کب کا صحرا کے سینے میں گم ہو چکا ہے
مگر آج میں جانتا ہوں
وہ میری ہی تصویر تھا
میرا اوتار تھا
میرا چہرہ تھا وہ
میں نے خود اس کو بھیجا تھا
اپنی طرف
اسے خود بلایا تھا اپنی طرف“
(آدھی صدی کے بعد)
اس مقام تک پہنچتے پہنچتے” بیٹے “ کا رشتہ ابھرنے لگتا ہے اور پھر وزیر آغا خود باپ کی مسند پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ گویا پہلے ان کی اپنے باپ کے ساتھ جو حیثیت تھی اب ان کے ساتھ وہی حیثیت ان کے بیٹے کی ہو گئی ہے:
” اور پھر یوں ہوا
میں نے اک بار پھر
بڑ کا بہروپ بدلا
خود اپنے ہی اندر سے باہر نکل کر
وہاں، جس جگہ اب سے پہلے
خنک ریت کا ایک صحرا بچھا تھا
میں پتوں کا اک تاج
سرپر سجائے
کھڑا ہو گیا
پھر میں
اپنے ہی چھتنار کی ٹھنڈی چھاﺅں میں
اپنی ہی ریشِ مبارک کے سایے میں
دھرتی کی مسند پہ
تشریف فرما ہوا....
اپنے ”ہونے“ کے ٹوٹے ہوئے آئینے میں
خود اپنے ہی منظر کو تکنے لگا!“
(آدھی صدی کے بعد)
بیٹی کا رشتہ وزیر آغا کی محبت سے کس طرح گندھا ہوا ہے۔ بیٹی کے اولین معصوم قہقہے پر ہی اس کا اظہار ہو گیا:
”آج میں اک نئی چہکار سے جاگ اٹھّا ہوں
قہقہہ ۔ ننھی سی گڑیا کا در آیا چپ چپ
اور میں خوابِ گر انبار سے جاگ اٹھّاہوں“
(حیات نو)
ماں، باپ اور بیٹے، بیٹی سے محبت کا روپ ایک طرف ان رشتوں کی صداقت کے مظہر ہیں تو دوسری طرف وزیر آغا کی محبت کا والہانہ اظہار۔۔ محبت کا دوسرا رُخ اس وقت سامنے آیا جب وزیر آغا نفرت کا نشانہ بنے۔ ان کے بعض عزیزوں نے ان کے چھوٹے بھائی کو چکر دے کر پھنسالیا۔ اس کی برین واشنگ کی گئی اور پھر بھائی ،بھائی کے خلاف صف آرا ہو گیا۔ رشتہ دار اپنی مکّارانہ چالوں پر نازاں تھے۔ وزیر آغا کو دکھ یہ تھا کہ بھائی نے جو رستہ اختیار کیا تھا وہ اس کی اپنی تباہی کا رستہ تھا۔ وزیر آغااس چھوٹے بھائی کو اس کی اپنی ہی اختیار کردہ اور رشتہ داروں کی تیار کردہ راہ سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس مرحلے میں انہیں جس داخلی کرب سے گزرنا پڑا اس کا اظہار نظم ”بے وفا“ میںملتا ہے۔ اس میں ”دل“ بھائی ہے اور ” ہوا “ ظالم رشتہ دار ۔ نظم دیکھئے:
”دل اک سوکھا پتّا جس نے شاخ سے ناتا توڑا
اپنو ںسے منہ موڑ کے جس نے تجھ سے رشتہ جوڑا
سوکھا پتہ شاخ سے ٹوٹا اب تو اسے اڑائے گی
جہاں بھی تیرا جی چاہا تو ساتھ اسے لے جائے گی
روش روش پر، گلی گلی میں کیا کیا ناچ نچائے گی
دیواروں سے دے مارے گی پاﺅں سے ٹھکرائے گی
پنکھ اس کے جب جھڑ جائیں گے تو آگے بڑھ جائے گی
دل اک سوکھا پتا جس نے شاخ سے ناتا توڑا
چھوڑ اپنوں کو اس پاگل نے کس سے رشتہ جوڑا“
وزیر آغا پیار اور محبت کے شاعر ہیں۔ زمانے کی بے مروتی، عزیزوں کی دھوکہ وہی، پیاروںکی بے وفائی ۔۔ ان تجربات نے وزیر آغا کے دل کو ٹھیس پہنچائی اور وہ بے اختیار پکار اٹھے:
پیار کے کچے دھاگے میں اب کون پروئے دل
آیا جھونکا، ٹوٹا دھاگا، بکھر گئی محفل
بچھڑ گئے سب سنگی، ساتھی، ڈوب گئی منزل
کون کسی کا دامن تھامے، کون کسی کا میت
شبنم ایسے کچے رشتے، بادل ایسی پریت
پل بھر برسیں نین رسیلے، پل بھر کا سنگیت
شام چِتا میں سورج کی، کیوں اپنا انگ جلائے
رات بے چاری کس کی خاطر، تارے گنتی جائے
پیار کے رشتے کچّے دھاگے ، پیار سے ہم بھر پائے
دکھ کی ڈور سے بندھا ہو ا ہے یہ سارا سنسار
روتی شبنم ، روتا بادل ، نینوں کی پھوہار
دکھ جیون کا ساتھی، سنگی، دکھ سے ہم کو پیار“
(پیار)
نفرت کے سنگین تجربات کے باوجود اس نظم سے ظاہر ہے کہ وزیر آغا کو رشتوں کے کچے پن اور بے مروتی کا دکھ تو ہے لیکن وہ اپنے دل میں پھر بھی محبت کی دولت ہی چھپائے بیٹھے ہیں۔ رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ نے وزیر آغاکونئے سرے سے غور وفکر کا موقعہ دیا۔ انہوں نے رشتوں کی ماہئیت پر غور کرنا شروع کر لیا:
”زمانے کی پھیلی ہوئی ڈور میں
چھنی کھچی گرہ ہے
گرہ کھل گئی گر
تو کچھ نہ رہے گا!
مگر آج میں سوچتا ہوں
میں خود بھی تو اک ننھی منی گرہ تھا“
(ٹرمینس)
” مگر میں بندیا نہیں ہوں شاید کہ وہ تو تقدیس کا نشاں ہے
دلوں کے دھاگوں کی اک گرہ ہے
گرہ ۔ جو صدیوں میں بننے والے حسین رشتوں کا آشرم ہے۔
جو آنے والی تڑپتی صدیوں کی ابتدا ہے
گرہ تو جنکشن ہے پٹڑیوں کا ، مسافروںکا، نئی نویلی رفاقتوں کا
محبتوں کا، اذیتوں کا“
(بیکراں وسعتوں میں تنہا)
” رشتے
بانکی موجوں ایسے
لپک ، جھپک کر آئیں
پل بھر رک کر
گرہ بنائیں
پھر ساحل کی سِل پر
گر کر کرچ کرچ ہو جائیں“
(اک کتھا انوکھی)
ہندوﺅں کی شادی کی رسم میں لڑکی، لڑکے کے پلو اور دامن میں گرہ باندھی جاتی ہے۔ اسلام میں نکاح کا حکم ہے اور لفظ نکاح کا معنی بھی گرہ ہے گویا دو رشتوں کے مابین گرہ باندھنا نئے رشتوں کو (نئی گرہوں کو ) کو بناتا چلا جاتا ہے۔ رشتے جڑے رہیں تو صدیوں تک جڑے چلے جائیں اور ٹوٹنے پر آئیں تو پل بھر میں ٹوٹ جائیں۔
بیوی کا رشتہ اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ وہ مرد کے وجود کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے الگ ہوتی ہے۔ وحدت سے دوئی پیدا کرتی ہے۔”من وتو“ کی حقیقت کو آئینہ کرتی ہے۔ ثنویت کا آغاز اسی رشتے سے ہوتا ہے۔ وزیر آغا کے ہاں محبت میں گندھی ہوئی اس ثنویت کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ چند مثالیں دیکھتے ہیں:
”چار سو اک بحرنا پیدا کنار
سینۂ لرزاں پہ جس کے بے قرار
موجۂ طوفاں، ہوائے شعلہ بار
ناترا شیدہ امنگوںکی جلن
سینۂ سوزاں میں پیہم اک لگن
ہو بہو میری طرح!
اک جزیرہ، خامشی سے ہم کنار
زرد کلیوں ، سرخ پھولوں کا دیار
نود میدہ آرزوﺅں کی بہار
صد حجاباتِ حسیں کی انجمن
بحر کی آشفتگی پر خندہ زن
ہو بہو تیری طرح!“
(من وتو)
” جانے کب سے باہیں کھولے، رستہ روکے، پیڑ کھڑا ہے!
جانے کب سے
جسم چرائے، آنکھ جھکائے، پگڈنڈی حیران کھڑی ہے!“
(میں اور تو)
”سیمگوں کلیوں کی ٹھنڈی سیج پر لیٹی ہوئی
صبح۔۔ اک سیّال سونے کا طلسم
صبح۔۔ جیسے تیرا جسم!
بادلوں کی گرم، بوجھل شال میں لپٹی ہوئی
شام۔۔ گہری برف کی بے جان سِل
شام ۔۔جیسے میرا دل
شام، بجھتی شام تیرے سامنے
صبح، ہنستی صبح میرے روبرو!“
(نیا سال)
یہاں سے پھر وزیر آغا کی محبت رشتوں کی سطح سے بلند ہونے لگتی ہے اور دعا کا روپ دھار لیتی ہے!
” اگر میں زمیں کے سیہ تنگ پاتال میں گر بھی جاﺅں تو کیا ہے
تجھے توزمیں کورے کاغذ کی صورت ملے
بیاض شب وروز پر دستخط تیرے قدموں کے ہوں
چہکتے ہوئے تینوں نٹ کھٹ زمانے
ترے گرد ناچیں
تو ہنسی کی تانوں سے ہر شے کو پاگل کرے، نذرِ آتش کرے
توڑ ڈالے
مگر خود نہ ٹوٹے
کبھی تونہ ٹوٹے!“
(دعا)
محبت میں قربت اور دوری کے معاملات بھی عجیب ہوتے ہیں۔ وزیر آغا کی نظموں میں فاصلوں کی کیفیت کے رنگ دیکھیں:
” یہ قربت یہ دُوری!
جو پلکیں اٹھاﺅ تو اک قربِ باہم
جو پلکیں گراﺅ تو اک ہُو کا عالم
وہی آرزﺅں کے بجھتے شرارے
وہی دل وہی دل کا صحرائے اعظم“
(قریب ودُور)
” درختوں کے نیچے
کوئی ۔ زرد پتوں، جلی کونپلوں
ادھ کھلی خشک کلیوں کی چادر بچھائے
ترا منتظر ہے!
بتا کون ہے یہ؟
جو اِن گنگ ہونٹوں، بجھی بند آنکھوں
جلے سرد ہاتھوں کے ہوتے ہوئے بھی
ترا منتظر ہے!“
(مسرت)
”تند خُو جُو ئے رواں کے پاس کھیتوں سے اِدھر
بھیگے پنچھی کی طرح سہما ہوا ننھا سا گھر
گھر کی چھت پر ایک پیکر، منتظر۔ وقتِ سحر
منتظر ۔۔ اور بے قرار“
(عکس )
محبت کا جذبہ ایک خاص مقام تک وقت کی گرفت میں رہتا ہے اور اس مقام پر وقت کی سفاکی اور بے رحمی دکھ کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ وزیر آغا کی نظموں میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں:
”کاش میں تیری مسرت کو جواں رکھ سکتا
کاش میں تیرے تبسم کو سہارا دیتا
تا ابد تیری نگاہوں میں لرزتا رہتا“
(ندامت)
” نہ جانے میں اس کالے بے جان پتھر پہ کب سے کھڑا ہوں
مرے سامنے اک بھیانک خلا ہے
خلا جو تری یاد کو کھا گیا ہے“
(تعاقب)
” اِدھر شام کی جوالا ٹھنڈی پڑی اور اُدھر
کہنہ بیساکھیوں کے سہارے ، اپاہج سی اک بڑھیا
بے دانت کے پوپلے منہ سے سیٹی بجاتی ہوئی سامنے آکے رک سی گئی
اور پھر رات بن کر
تجھے ڈس گئی
پھر مجھے ڈس گئی“
(ڈولتی ساعت)
” گھسی اور اکھڑی ہوئی چھوٹی اینٹوں پہ
مہندی کی سرخی کا مدھم سا کوئی نشاں اب بھی ہوگا
مگر تازہ پھولوں کی پاگل مہک
اور مہکتے لبادے میں اجلا بدن
اور کھنکتی ہنسی
پھر ہنسی ضبط کرنے کی مدھم صدا
تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کا مدھر سلسلہ
وہ مدھر سلسلہ اب کہاں ہے
زمانے کے جالے میں محبوس، بجھتی ہوئی یہ صدا
جس کی خاطر تو سنسان زینے کے پہلے قدم پر کھڑا ہے۔
صدا تو نہیں ہے۔
فقط لاش ہے ایک مُردہ صدا کی!“
(واپسی)
” وہ اک تازہ شے
جو تری آنکھ کے نیم واسے دریچے میں
مٹی کا صدیوں پُرانا دیا بن کے جلتی رہی ہے۔
مگر اب نہیں ہے!“
(وہ اک تازہ شے)
وقت کی بے رحمی کا ادراک ہوتے ہی وزیر آغا کی محبت جسم کی سطح سے پوری طرح اوپر اٹھ آتی ہے۔
” میں پنچھی نہیں ہوں کہ اک پل کے سُکھ کے لئے
تیری پھولوں بھری نرم آغوش کو اپنا مسکن بناﺅں
زمانے کو
تیری بھری بزم کے کسمسانے
بڑے زور سے چیخ کر پھڑ پھڑانے کا منظر دکھاﺅں
مجھے دُور جانا ہے میں جا رہاہوں!“
(پرانی بات)
جب ان کی ذات پوری کائنات سے ہم آغوش ہوتی ہے اور اس کے بھید اور اسرار ان پر منکشف ہونے لگتے ہیں تو پھر وقت بھی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے:
” مجھ کو محسوس ہوتا کہ سارا فلک
ایک ٹوٹا ہوا آئینہ ہے
ستارے ، چمکتی ہوئی کرچیاں ہیں
میں خود
ہر ستارے کی کرچی میں ہوں
جیسے کمسن زمیں
اور بوڑھا فلک
اور معصوم تارے
سبھی میرے ہم راز
سب میرے اپنے ہیں
میں، سبز مخمل کی مسند پہ
بیٹھا ہوں
تینوں زمانے
مرے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں“
(آدھی صدی کے بعد)
یہاں بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوتی ہے، ایک طرف تو وزیر آغا کی محبت جسم کی سطح سے اوپر اٹھ آتی ہے اور وہ رشتوں سے بڑھ کر فطرت کے مظاہر اور مناظر سے ایک تعلق قائم کرنے لگتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ دوبارہ ان مظاہر اور مناظر کو جسم کی حدود میں لے آتے ہیں، شام، رات، تارے، سورج، پیڑ، پودے، خوشبو، ہوا، بادل، بجلی، خاموشی، سناٹا،گلی، انگیٹھی، روایت، نفرت۔۔ یہ سارے مظاہر ، مناظر اور جذبے وزیر آغا کی نظموں میں انسانوں کی طرح اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیں:
”آنکھ مچولی کھیلتے تاروں کی سن کر چہکار
کچی نیند سے رات کی رانی جاگ اٹھی یکبار
تاروں نے دم سادھ لیا بُت بن گئے سب اشجار
گجرے پہنے ، بال سنوارے، چپل دئے اتار
سندر آنچل سر پر لے کر ہوگئی وہ تیار
ننگے پاﺅں جھینپتی ڈرتی، چلی پیا کے دوار
اک پتھر پر اکڑوں بیٹھا سوچ رہا ہوں یار
رات بچاری ہرشب یونہی ہوتی ہے تیار
آخر میں اک بھیگا آنچل اور اشکوں کے ہار“
(نارسائی)
”بہت دور جاتا ہوا کوئی پنچھی
کسی دم بخود پیڑ کو اپنا مسکن بنائے
تو اس پیڑ کی نرم ، لچکیلی شاخیں
بگڑ کر ، بُرا مان کر کسمسائیں“
(پرانی بات)
” تب رات خوشبوﺅں میں نہائی ہوئی اٹھی....
تاروں کی ہانپتی ہوئی بارات دُھل گئی
بوڑھی گلی میں دھیرے سے چپ خیمہ زن ہوئی
کھڑکی کی آنکھ کیا بجھی، دنیا بدل گئی
دکھ اوٹ سے کواڑ کے میرے طرف بڑھا“
(دکھ)
” وہ صدیوں سے
بڑھتے ہوئے وقت کے راستے میں
لبوں کو سیئے، دم بخود، بے سہارا کھڑی ہے“
(روایت)
رات سیہ چادر میں تن کے بھید چھپائے
اندھے غار سے باہر آکر
اپنا سب کچھ ہار گئی ہے“
(فشار)
” وہ ہنسی
زہر میں ڈوبے ہونٹوں نے مجھ سے کہا:
تو یونہی ڈر گیا
میں۔۔ ہوا
دور پربت پہ میرا نگر“
(المیہ)
” اور پھر اک دن ظالم سورج
اپنی خونی آنکھ سے مجھ کو گھور رہا تھا“
(سگِ زرد)
”گہری ، نیلی آنکھ تھی اس کی
سبزی مائل رنگ
ٹیڑھی، ترچھی ناک کے نیچے
کُھلے ہوئے جبڑے سے نکلے
بھیڑیئے ایسے لانبے دانت“
(نفرت)
” نٹ کھٹ، بانکی ، تیز سی خوشبو
ناچ ناچ کر ہار ی
پھر جب مست ہوئی
چِت لیٹ گئی!“
(بوجھل خوشبو)
”شام نے دیکھا کہ یہ پہلا ستارہ
پیش رو تھا ان ستاروں کا
جواَب چاروں طرف اُگنے لگے
دائرے میں اس کو لے کر
دکھ سے بوجھل، کرب میں گوندھی ہوئی آواز میں
کہنے لگے:
ہم تجھے مرنے نہ دیں گے
ہم تجھے مرنے نہ دیں گے
ہائے تو کیسے گری
باجی تو کیسے گر پڑی!“
(ایک شام)
”بدن اس کا ہزاروں سرخ پھولوں سے فروزاں تھا
تمازت اور خوشبو۔۔ دوجواں سکھیاں
اسے سرگوشیوں میں چھیڑتی تھیں“
(انگیٹھی)
” وہ ۔۔ دو بھائی
ایک ہی جڑ سے انکھوے
بن کر پھُوٹے
اک نے پیڑ کا سوانگ رچایا
دوسرا۔۔ تنگ کلاوے میں سے
زور لگا کر نکلا۔۔ اور آزاد ہوا“
(بن باس)
وزیر آغا کی محبت کا سلسلہ اپنی ذات سے شروع ہوا۔ رشتوں میں تقسیم ہوا، پھر رشتوں کی سطح سے آگے بڑھا اور مناظرِ فطرت تک پہنچا ۔ بے جان اشیاءمیں جان سی پڑ گئی لیکن عشق کی طلب بے انت ہوتی ہے اور منزل نا معلوم۔۔ وزیر آغا کی محبت مختلف مدارج سے گزر کر اب اس نامعلوم عظیم ہستی کی کھوج میں ہے جو ساری محبتوں کا منبع اور مرکز ہے، ساری محبتیں وہیں سے پھوٹتی ہیں اور وہیں پہنچتی ہیں مگر اس عظیم ہستی کے بھید کو کون جان سکا ہے؟۔۔ اسے تو ہمیشہ مجاز کے وسیلے سے ہی سمجھنے کی کوشش کی گئی ۔ مجاز کا وسیلہ سہی۔۔ تلاش اور جستجو ڈھونڈنے والے کی محبت اور خلوص کی گواہی تو دیتی ہے۔ وزیر آغا کی ایک نظم سے ایسی گواہی دیکھئے:
”عجیب ہے یہ سلسلہ
یہ سلسلہ عجیب ہے
ہوا چلے تو کھیتیوں میں دُھوم چہچہوں کی ہے
ہوا رُکے تو مُردنی ہے
مُردنی کی راکھ کا نزول ہے
کہاں ہے تُو؟
کہاں ہے تُو؟
کہاں نہیں ہے تُو۔ بتا!
ابھی تھا تیرے گرتے، اُڑتے آنچلوں کا سلسلہ
اور اب افق پہ دور تک
گئے دنوں کی دُھول ہے
گئے دنوں کی دُھول کا یہ سلسلہ فضول ہے
میں رو سکوں تو کیا یہ گدلی کائنات دُھل سکے گی
میرے آنسوﺅں کے جھاگ سے؟
میں مسکرا سکوں
تو کیا سفر کی خستگی کو بھول کر یہ کارواں نجوم کے
برس پڑیںگے موتیے کے پھول بن کے
اس مہیب کاسۂ حیات میں؟
نہ تو سنے نہ میں کہوں
نہ میرے انگ انگ سے صدا اٹھے
یونہی میں آنسوﺅں کو، قہقہوں کو
اپنے دل میںد فن کرکے
گم
لبوں پہ سِل دھرے
ترے نگر میں پاپیادہ، پا برہنہ
شام کے فشار تک رواں رہوں
مگر کبھی تری نظر کے آستاں کو
پار تک نہ کرسکوں
کہ تُو ازل سے تا ابد
ہزار، صد ہزار آنکھ والے وقت
کی نقیب ہے
یہ سلسلہ عجیب ہے
یہ سلسلہ عجیب ہے!!“
(عجیب ہے یہ سلسلہ)
اس عظیم ہستی کی محبت اور جستجو میں ”ہوا“ کی علامت بڑی خوبصورتی سے آئی ہے۔ اس علامت کو محبت کی بالائی سطح سے ہٹ کر دیکھتے ہیں تو اس کے دو روپ نمایاں ہوئے ہیں، ایک تعمیری روپ اور ایک تخریبی روپ۔ پہلے تخریبی روپ کی چند مثالیں:
” ہوا۔ خشک پتوں ، پھلوں، بوٹیوں
مُردہ پھولوں کی بُو سے کچھ اس درجہ بوجھل ہے، چلتے ہوئے ہانپتی ہے
کبھی اس کی کڑوی کسیلی تمازت سے نتھنوں کو تم آشنا تو کرو
کبھی اس بھیانک سیہ موت کا سامنا تو کرو“
(مشورہ)
”رات آئی تو نٹ کھٹ جھونکا ہو گیا پھر پاگل
کچے ہو گئے زخم پرانے، ٹھہر گیا ہر پل
وہی ہوا کی وحشی چھاگل ، وہی برستا جل“
(ریا کار)
” ہوا کچو کے لگا کے کہتی ہے:تم ابھی سانس لے رہے ہو؟
ہوا سے کیسے کہوں کہ میری یہ سانس تو ایک واہمہ ہے“
(ہوا اگر میرا روپ دھارے)
”مگر جھونکا کہ اک صحرائی بدّو ہے
کبھی خیموں کی جانب چور قدموں سے نہیں آتا
دہکتی سرخ آنکھوں
تیز لانبی برچھیوں سے لیس ہو کر
اک سیہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ سے لپٹا
وہ آتا ہے۔۔ تو دھرتی کانپ اٹھتی ہے“
(کون اس کو روک سکتا ہے!)
” ہوا سے کہنا
خدارا ،اتنی نہ تیز آئے
کہ سبز پتے
لچکتی شاخوں سے ٹوٹ کر گر پڑیں
زمیں پر“
(ہوا سے کہنا)
اب ” ہوا “ کے تعمیری روپ کی چند مثالیں دیکھیں:
” ہوا کی منزل کہیں نہیں ہے
کبھی سرِ کوہ اس کا مسکن
کبھی سمندر کی ہم نشیں ہے
ہوا کی منزل کہیں نہیں ہے“
(آوارہ)
” یہ اک سرد جھونکا جسے تم نے آوارہ پنچھی کہا ہے
یہی زندگی ہے
اسی سرد جھونکے سے دنیا بنی ہے“
(زندگی )
” مری سانس کا سلسلہ
ایسے ٹوٹے ۔۔ کہ اک مست جھونکے کے مانند گرتی ، لڑھکتی ہوئی عمر میری
ہری، لانبی، مخمل سی، خوشبو بھری گھاس میں
اپنے ننگے بدن کو اتارے“
(نروان)
” ہوا کہتی رہی آﺅ
چلو اس شاخ کو چھو لیں
ادھر، اس پیڑ کے پتوں میں چھپ کر تالیاں پیٹیں
گریں، اٹھیں، لڑھک کر نہر میں اتریں، نہائیں
مخملیں سبزے پہ ننگے پاﺅں چل کر دور تک جائیں“
(ہوا کہتی رہی آﺅ۔۔۔)
” ہوا کے جھونکے نے پنکھ کھولے
بدن کو تولا
چہک اٹھے شاخ شاخ پتّے
چمکتا کانسی کا چاند۔۔ بولا!
پروں کا اجلاسا لمس
میرے بدن پہ اترا تو میں بھی زندوں کی
صف میں آیا“
(ہوا کے جھونکے نے پنکھ کھولے)
” پرندہ ہوا ہے
ہوا سانس ہے
سانس چھاتی کے پنجرے میں آنے کا
اور لوٹ جانے کا اک سلسلہ ہے
میں اس سلسلے کے پر اسرار سے زیرو بم میں رواں ہوں“
(ازل سے ابد تک)
کسی نقاد نے لکھا تھا کہ وزیر آغا کے ہاں’ ’ہوا“ کی علامت کا تخریبی پہلو نمایاں ہے مجھے وزیر آغا کی نظموں کے مطالعہ کے دوران معلوم ہوا کہ ان کی نظموں میں ہوا کے تخریبی اور تعمیری دونوں پہلو موجود ہیں۔ حساب کتاب کی اول تو ضرورت نہیں لیکن اگر کیا بھی جائے تو ہوا کا تعمیری پہلو زیادہ بیان ہوا ہے ور اسکے تخریبی پہلو میں بھی مجموعی طور پر ایسے انہدام کی کیفیت ہے جو نئی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے۔ ہوا کے دونوںرخ دراصل وزیر آغا کے ثنویت کے تصور کا شعری اظہار ہیں۔ ثنویت جس سے زندگی کا حسن اور اس کے سارے رنگ قائم ہیں۔
ابھی تک میں نے وزیر آغا کی شاعری کے بنیادی موضوع محبت اور بعض علامتوں کی حدتک ان کی نظموں کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اب ان کی چند ایسی نظمیں دیکھیں جن میں موضوعاتی حوالے کے بغیر بھی شعری حسن اپنا کمال دکھا رہا ہے۔ کیا جدید اردو نظم کی یہ حسن کاری وزیر آغا کے علاوہ کسی اور نظم نگار میں نظر آتی ہے؟
” عجب جادو بھری آنکھیں تھیں اس کی
وہ جب پلکیں اٹھا کر اک نظر تکتی
تو آنکھوں کی سیہ جھیلوں میں
جیسے مچھلیوں کو آگ لگ جاتی
ہزاروں سرخ ڈورے تلملا کر جست بھر تے
آبِ گم کی قید سے باہر نکلنے کے لئے
سو سو جتن کرتے“
(دیوار گریہ)
”عجب وہ شخص تھا
زہرہ ، زمیں، مریخ۔ سب
سورج کو کعبہ جان کر قربان ہوتے ہیں
مگر وہ شخص تو
اپنے ہی مرکزپر
نجانے کب سے گرداں تھا
سنا ہے کوئی سورج
اس کے اپنے تن کے اندر جل اٹھا تھا
وہ جس کے گرد
شپ بھر گھومتا تھا“
(عجب وہ شخص تھا)
” تو آﺅ۔۔ قریب آکے دیکھو
کہ میں تو ہزاروں برس سے
شب وروز ساحل کی جانب
تمہاری ہی جانب
امنڈتا رہا ہوں
کبھی میں نے سوچا نہیں تھا
کہ اک روز جب میں چٹانوں کے قدموں میں
ساحل کی بھیگی ہوئی ریت پر آکے بچھنے لگوں گا
تمہارے قدم چُھو سکوں گا“
(اگر آج تم!)
وزیر آغا کی طویل نظمیں ”آدھی صدی کے بعد“، ”اک کتھا انوکھی“ ، ” ٹرمینس“ اور ’الاﺅ“ جدید اردو نظم میں خوبصورت اور انوکھا اضافہ ہیں۔ پہلی دو نظموں پر تو میں الگ سے تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں۔ یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ مجھے وزیر آغا کی بعض ابتدائی نظموں میں ان طویل نظموں کے امکانات نظر آئے ہیں۔ ” واپسی“ کے عنوان سے وزیر آغا کی دو چھوٹی نظمیں کلیات کے صفحہ283اور 496پر درج ہیں۔ یہ نظمیں ’ ’ آدھی صدری کے بعد“ کا پیش خیمہ تھیںکیونکہ ’ واپسی ‘ کے جو تجربے ان نظموں میں ہوئے انہوں نے وزیر آغا کو پچاس سال کے بعد پھر یادوںکی واپسی کا منظر دکھایا اور یوں اردو نظم کو ” آدھی صدی کے بعد“ جیسی شاہکار نظم عطا کی۔
” جب اور اب “ (صفحہ 264) اور ” ترغیب“ (صفحہ 389) دو الگ الگ موضوعات کی نظمیں ہیں۔ ” جب اور اب“ میں دل کی آواز کی اہمیت ظاہر کر کے اس دکھ کا اظہار کیا گیا ہے کہ اب دل کی آواز کوئی نہیں سنتا۔”ترغیب“ میں آہنی شہر میں ملوں، بلڈوزروں اور لوہے کے جھولوں کے ذریعے IRON AGEکا المیہ بیان ہوا ہے۔لیکن نظم کا اختتام ان لائنوں پر ہوتاہے:
کبھی تم جو آﺅ
تو میں تم کو پلکوں پہ اپنی بٹھاﺅں
تمہیں اپنے سینے کے اندر کا منظر دکھاﺅں
گویا دنیا کی ہاہا کار میں بھی دل کی آواز، اندر کی آواز ابھی زندہ ہے۔ یہی دونوں نظمیں آگے چل کر ”اک کتھا انوکھی“ جیسی اعلیٰ نظم کی تخلیق کا سبب بنیں۔
اسی طرح نظم” آویزش“ (ص441) میں مجھے طویل نظم” الاﺅ“ کے امکانات نظر آئے ہیں میراخیال ہے وزیر آغا کے ہاں اس تسلسل کو دریافت کرنے کے لئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ خیال کے دیگر ممکنات کے کھل کر سامنے آنے کے باوجود وزیر آغا نہ صرف خود کو دہرانے اور بے جا تکرار سے محفوظ رہے ہیں بلکہ نئی نئی علامتوں اور استعارات کے ذریعے ان کی نظموں کی تازگی بھی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
جدید اردو نظم کا اب تک کا سفر راشد(لا=انسان) کے ہاں انسان کی نفی سے شروع ہو کر وزیر آغا کے ہاں انسان کے اثبات تک کی روداد ہے۔ مجید امجد کی زندگی میں اس کی تفہیم پر توجہ نہیں دی گئی تھی لیکن اب مجید امجد کو سمجھاجانے لگا ہے۔ جب مجید امجد کو پوری طرح سمجھ لیا جائے گا تب وزیر آغا کی نظموںکی اہمیت اور عظمت کا بھی کھل کر اعتراف کیا جائے گا کیونکہ وزیر آغا کی نظم مجید امجد کی نظم سے آگے کی تخلیق ہے۔ تب ادبی سیاستدانوںکی سیاست گری کا طلسم وزیر آغا کی تخلیقات کے سامنے اسی طرح دھواں ہو جائے گا جس طرح مجید امجد کی نظم کے سامنے ہَوا ہو گیا ہے۔
مستقبل میں وزیر آغا کی نظم کو جو اہمیت اور عظمت ملنے والی ہے میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور خلوص دل سے اس عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں!