(ایڈیشن اول)
ڈاکٹر وزیر آغا ہمارے ادب کی عہد ساز شخصیت ہیں۔ عہد ساز شخصیت کے الفاظ میں نے محبت یا مروّت میں نہیں لکھے بلکہ ایک حقیقت بیان کی ہے۔ یوں ان کی مجموعی ادبی کار کردگی کے اثرات پاکستان اور ہندستان کے ادب پر اتنے نمایاں ہیں کہ سنجیدہ ترقی پسند ناقدین نے بھی برملا طور پر اس کا اقرار کیا ہے تاہم جیسے جیسے وقت گزرے گا ان کے گہرے اثرات کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا۔
ہر بڑے اور اچھے ادیب کی طرح ڈاکٹروزیر آغا کے مخالفین بھی بے شمار ہیں۔ مخالفت کرنے والا ایک طبقہ ایسا ہے جو فکری طور پر ان سے اختلاف رکھتاہے اور اس اختلاف کا ادبی سطح پر اظہار کرتاہے۔ ایسا اختلاف ادب کے ارتقا کے لئے مفید ہوتاہے سو ان سے ادبی ڈائیلاگ ہوسکتاہے اورہوتا رہتاہے۔ دوسرا طبقہ ان مخالفین کا ہے جوحسد اور ذاتی رنجش کے مارے ہوئے ہیں۔حسد توخیر کبھی بھی اچھا نہیںہوتا لیکن ممکن ہے کہ ذاتی رنجش میں بعض لوگ حق بجانب ہوں، ان کے گلے شکوے سچ ہوں یا غلط فہمی کا نتیجہ ہوں۔ اس کے باوجود محض ذاتی رنجش کی بنا پر ڈاکٹر وزیر آغا کی علمی و ادبی خدمات کو منفی رنگ دینے کی کوشش کرنا کوئی صحت مندانہ رویہ نہیںہے۔ اگر دلیل کے ساتھ اورعلمی سطح پر اعتراض کئے جائیںتو ایسے لوگوںکے حسد اور ذاتی رنجش کو نظر انداز کیا جا سکتاہے لیکن افسوس یہ ہے کہ مخالفین کا دوسرا طبقہ صرف گالی اور نفرت کی زبان جانتاہے۔ایسے مخالفین قابلِ رحم ہیں۔ان کے حق میں صرف دعائے خیر کی جا سکتی ہے۔ مخالفین کا تیسرا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی کتب کا براہِ راست مطالعہ نہیں کیا۔بعض مخالفین یا
اخباری چٹکلوں سے انہوں نے خود ہی ایک تاثر قائم کرلیا۔ ایسے لوگوں کو وزیر آغا کی کتب کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔
میری یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے گزشتہ دس برس کے دوران ڈاکٹر وزیر آغا کے فن کی مختلف جہات پر وقتاً فوقتاً تحریرکئے ہیں۔ جب مجھے انہیں یکجا کرنے کا خیال آیا تب اندازہ ہوا کہ یہ بکھرے ہوئے مضامین الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان سے علم و فن کی کسی سطح کا سہی، ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں ایک واضح تاثر سامنے آتا ہے۔
1۔ ذاتی شخصیت 2۔ بحیثیت نظم نگار 3۔بحیثیت غزل گو 4۔ بحیثیت انشائیہ نگار 5۔ بحیثیت سوانح نگار 6۔ بحیثیت مفکر نقاد 7۔ بحیثیت مدیر ۔ ۔۔۔ان ساری حیثیتوں میں ان کامطالعہ کرتے ہوئے میں نے جو کچھ محسوس کیا اسے مناسب طریق پر لکھ دیا۔
ڈاکٹر وزیر آغا کے بعض ذہین مخالفین نے اپنی ذہانت کامظاہرہ یوں بھی کیاہے کہ بحیثیت نقاد ان کی اہمیت کو تسلیم کرلیا۔بحیثیت انشائیہ نگار بھی مان لیا لیکن شاعری کے بارے میں دانستہ طور پرغلط فہمیاں پھیلائی گئیں۔ شاید اسی وجہ سے اس کتاب میں شامل میرے تین مضامین وزیر آغا کی شاعری سے متعلق ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین اس کتاب میں شامل میرے تین مضامین کے ذریعے شاعر وزیر آغا سے مل کر ایک خوشگوار حیرت سے دوچارہوں گے اور پھر براہ راست وزیر آغا کی شاعری کے مطالعہ کا اشتیاق محسوس کریں گے۔ نقاد وزیر آغا کو چونکہ اپنے پرائے سبھی مانتے ہیں۔ شاید اسی لئے ان کی تنقید نگاری پر زیادہ نہیں لکھ سکا۔میری اس کتاب کا مقصد وزیر آغا کو منوانا نہیںہے کیونکہ وہ ماننے، منوانے کی سطح سے بہت اوپرہیں۔ اس کامقصدصرف اتنا ہے کہ جو لوگ وزیر آغا سے واقف نہیںہیں، وہ ان سے ملاقات کر سکیں اور جو پہلے سے واقف ہیںوہ ایک نئی ملاقات محسوس کر سکیں۔
حیدر قریشی
(۱۹۹۵ء کی تحریر)