میں نے اپنی ابتدائی ادبی زندگی میں وقفہ وقفہ سے ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصی،فکری اور مختلف تخلیقی جہات پر مضامین لکھے تھے۔یہ مضامین ایک وقفہ کے بعد ۱۹۹۵ء میں ”ڈاکٹر وزیر آغا۔عہد ساز شخصیت“ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیے گئے۔اب اسی کتاب کا نیا اور نظر ثانی شدہ ایڈیشن ای بک کی صورت میں انٹرنیٹ پر پیش کر رہا ہوں۔کوئی مناسب پبلشر مل گیا تو یہ کتاب شائع بھی ہو جائے گی۔
پہلے ایڈیشن کے مضامین کے ساتھ اس بار دو نئے مضامین”اوراق اور میں“ اور” اوراق اور ماہیا“ بھی شامل کر رہا ہوں۔یہ دونوں مضامین اوراق کے پینتیس سالہ نمبر کے موقعہ پر وزیر آغا کی فرمائش پر لکھے گئے تھے۔ماہیا والا مضمون ڈاکٹر وزیر آغا سے زیادہ متعلق نہیں ہے،تاہم ماہیا کے سلسلہ میں” اوراق“ کی جانب سے کی جانے والی حوصلہ افزائی کو در اصل وزیر آغا کی جانب سے حوصلہ افزائی میں شمار کیا جانا چاہیے۔مزید یہ کہ ماہیا کی بحث،مخالفت اور موافقت کے ساتھ انشائیہ کی روداد سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔سو میں نے چاہا کہ اس مضمون کو بھی اس کتاب میں شامل کر لیا جائے۔اپنے مضمون”اوراق اور میں“میں میں نے بڑے ناز کے ساتھ لکھا تھا کہ جب سے ”اوراق“میں چھپنا شروع کیا ہے کسی شمارے میں میری غیر حاضری نہیں ہوئی۔
’ ’اوراق“کے پینتیس سالہ نمبر کی اشاعت کے بعد اس کی اشاعت معطل ہو گئی۔ایک وقفہ کے بعد جب نیا شمارہ آیا تو اس میںمیری کوئی تحریرشامل نہیں تھی۔ظاہر ہے یہ میرے لیے ایک ذاتی صدمے جیسی بات تھی۔سو میں نے اپنی شکایت کا اظہار کر دیا۔آغا صاحب نے پھر میری تخلیقات کے لیے تقاضا کیا لیکن مجھے پہلی غیر حاضری کا اتنا افسوس ہوا کہ پھر جی نہیں چاہا کہ ”اوراق“کے لیے کچھ بھیجوں۔چند شماروں کے بعد” اوراق“اپنے تیسرے دور کے بعد بند ہو چکا ہے۔اس کی اشاعت کے دوسرے دور میں اس کا میرا(۱۹۷۹سے ۲۰۰۰ءتک) بھر پور ساتھ رہا اور میری علمی و ادبی تربیت میں آغا صاحب اور ”اوراق“ کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔لیکن اس کے بعد اوراق سے ایسا گلہ ہوا کہ چھپنے کو جی نہیں مانا۔ایک آدھ بارآغا صاحب نے میری کوئی مطبوعہ چیز ازخود شائع کر دی لیکن پھر بھی میرا جی نہیں مانا۔اس کے پس منظر میں جو کچھ تھا وہ بہر حال میرے اور آغا صاحب کے درمیان کی بات ہے۔
معمولی سی رنجش اوروقتی ناراضی کے باوجود”اوراق“ کے سابقہ رول اور آغا صاحب کی ہمیشہ کی محبت اور تربیت اب بھی میرا اثاثہ ہے۔آغا صاحب کے علمی و ادبی اثرات مجھ پر خاصے گہرے ہیں،میں اپنی کامیابیوں میں ان اثرات کو بھی شمارکرتا ہوں ۔
وزیر آغا کے علمی و ادبی کوائف میں اس دوران بہت پیش رفت ہو چکی ہے،میں نے ممکنہ حد تک نئی کتابوں کے ناموں کا اضافہ کر دیا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ابھی یہ کوائف نا مکمل ہیں۔
اپنے پرانے مضامین پڑھتے ہوئے مجھے وہ دن یاد آتے رہے جب ڈاکٹر وزیر آغا کے مخالفین نے اخبارات کے ادبی صفحات پر جھوٹے پروپیگنڈے کی مہم چلا رکھی تھی۔اتنا بے بنیاد مگر منظم پروپیگنڈہ ہوتا تھا کہ جن لوگوں نے وزیر آغا کی کتابوں کو پڑھ رکھا تھا وہ الزامات کو پڑھ کر ہکا بکا رہ جاتے تھے۔اپنے مضامین لکھتے وقت چونکہ میرے ذہن میں ایسے پروپیگنڈے کی گونج موجود تھی اسی لیے میرے مضامین میں کہیں کہیں جذباتی کیفیت اور ردِ عمل کی سختی در آتی رہی۔پھر ابتدائی ایام کی مضمون نگاری تھی تو اندازِتحریر اب کی نسبت بہر حال کمزور تھا۔میں نے نظر ثانی (ایڈیٹنگ)کرتے وقت زیادہ ترجذباتی ردِ عمل والی تلخی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے،تاہم اکا دکا جگہوں پر الفاظ کو جوں کا توں بھی رہنے دیا ہے۔نسبتاََ کمزور تحریر اور ردِ عمل کی سختی کے باوجود ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت اور فن کی مختلف جہات پر میں نے جو کچھ لکھا تھا،مجھے وہ سارالکھا ہوا آج بھی مکمل سچ لگتا ہے۔گویا کہیں کہیں جذباتی ہوجانے کا اقرار کرنے کے باوجود میں آج بھی اپنے موقف کو درست سمجھتا ہوں،سو اس کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔
میں پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ ڈاکٹر وزیر آغا کے مخالفین میں سے پچانوے فی صد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے انہیں پڑھے بغیر ان کی مخالفت میں اخباری سطح کی جملہ بازی کی۔ جن لوگوں نے وزیر آغا کو کچھ پڑھنے کے بعد مخالفت کی ،ان میں شروع سے لے کر اب تک ایسے مخالفین شامل تھے جوجملہ علوم سے بے بہرہ محض کسی ایک علم تک محدود تھے اور اس میں بھی ان کا مطالعہ درسی نوعیت کا تھا۔موسیقی سے لے کر نفسیات و فلسفہ تک کے جن طلبہ نے اس قسم کا کارِ خیر انجام دیا ان کے رویے پر مجھے وہ مثال یاد آگئی کہ مختلف لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں ہاتھی کو چھو کر بتانا تھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے؟چنانچہ کسی کو ہاتھی بڑے کان والا سجھائی دیا تو کسی کو ٹھوس ستون جیسا،کسی کو لجلجا سا محسوس ہوا تو کسی کو پہاڑ جیسا۔۔۔یعنی جس نے اپنا ہاتھ جہاں مس کیا اس نے صرف اتنا ہی اسے سمجھ لیا۔وزیر آغا کے معاملہ میں پڑھے لکھے کہلانے والوں کی طرف سے یہی خرابی ہوئی کہ کسی ایک شعبے میں ہلدی کی گانٹھ ملنے پر پنساری بن بیٹھنے والوں نے وزیر آغا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اپنے محدود نصابی دائرے کی پٹی باندھ کر انہیں دیکھنے کی کاوش کی۔یوں وزیر آغا کے ہاں دریا میں کوزے کو بند کرنے کا امتزاجی منظر دیکھنے کی بجائے یار لوگ اپنے کوزوں میں سے دریا بہانے کے منظر دکھاکر اپنی شعبدہ بازی پر خود ہی بغلیں بجاتے رہ گئے۔
ہماری اردو کی علمی و ادبی دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا جیسی علمی و ادبی شخصیت اسے نصیب ہوئی اوراردو کی ادبی دنیا کی بد قسمتی ہے کہ اس نے ان کی شایانِ شان قدر نہیں کی۔ان کے علمی و ادبی مرتبہ کا اعتراف کرنے میں ہمیشہ ذاتی و گروہی مفادات آڑے آتے رہے۔
امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر وزیر کے فن و شخصیت کی تفہیم میں یہ کتاب کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کرے گی۔
حیدر قریشی(جرمنی سے)
مورخہ ۲۸ اگست۲۰۱۲ء