اردو انشائیہ اس صدی کے دوسرے نصف کے آغاز کا قصہ ہے اور اب یہ کوئی دوچار برس کی بات نہیں رہی۔ 1950 سے اب تک ایک طرف انشائیہ کے خدو خال کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف اس کے خدو خال مسخ کرنے کی ’سعیٔ نامشکور‘ کی گئی۔ ایک طرف اس کی کوئی تعریف متعین کرنے کی مخلص کاوش کی گئی تو دوسری طرف ’عقل سلیم‘ سے کام لئے بغیراس کی تضحیک کی گئی۔ ایک طرف اردو ادب میں انشائیہ کی تاریخ مرتب کی گئی تو دوسری طرف انشائیہ کی بنیاد گرانے میں کوئی کسرنہ اٹھارکھی گئی—— لیکن انشائیہ سخت جان صنف ادب نکلی پیروں، مریدوں، ڈاکٹروں، عطائیوں سب کی مخالفتیں دھری رہ گئیں اور انشائیہ کی کونپل ایک مضبوط پودا بن گئی۔ مخالفین جھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔پہلے صنفِ انشائیہ کی تضحیک کی جاتی تھی پھر تضحیک کرنے والے عطائی کالم نگار الیکٹرانک میڈیا پر اپنے کالم انشائیہ کے لیبل کے ساتھ پیش کرنے لگے۔پہلے وزیر آغا کے مقابلے میں نام نہاد انشائیہ نگاروں کو اکلوتا انشائیہ نگار بنانے کی جد و جہد ہوتی رہی۔جب اس میں ناکامی ہوئی تو اختر اورینوی کے ایک دیباچے کا سہارا لے کرعلی اکبر قاصدکو انشائیہ کا بانی بنانے کی تگ و دو کی گئی — مخالفین کا ہر نیا موقف خود ان کے پہلے موقف کی تردید کرتا گیا۔
جہاں تک اردو انشائیہ کی کوئی حتمی تعریف وضع کرنے کا تعلق ہے، صرف انشائیہ ہی نہیں کسی صنفِ ادب کی کوئی حتمی تعریف بیان نہیں کی جا سکتی۔اس کے باوجود مختلف دوسری اصناف ادب جن کے بارے میں مختلف تعریفیں موجود ہیں اور ان میںتضاد ہونے کے باوجود ان اصناف ادب کو سمجھنے میں کوئی مغالطہ نہیں ہوتا، انشائیہ کی تعریف اور تفہیم کے معاملے میں مخالفین نے ہمیشہ’تجاہل عارفانہ‘ ‘سے کام لیا۔ مثلاً انشائیہ کی تفہیم کے لئے بار بار یہ سمجھا گیا کہ عادت اورتکرار کے دائرے سے باہر آکر کسی چیز کو دیکھا جائے تو ایک نیا جہانِ معنی طلوع ہوگا۔ پھر اس رمز کو سمجھانے کے لئے کبھی بتایا گیا کہ شہر کے کسی اونچے مینار سے شہر کو دیکھا جائے تو وہ اس شہر سے مختلف ہوگا جو ہم اب تک دیکھتے رہے ہیں۔ کبھی بتایا گیا کہ ایک کنارے سے دوسری طرف کا ایک ہی منظر دیکھنے کے بعد اگر آپ دوسرے کنارے کے طرف چلے جائیں تو وہاں سے آپ کو ایک مختلف اور نیامنظر دکھائی دے گا۔ کبھی بچپن کے ایک کھیل کی نسبت سے بتایا گیا کہ اگرآ پ سمندر کو سامنے سے دیکھتے ہیں تو عام سی بات ہے لیکن اگر ٹانگوں میں سے سمندر کی طرف دیکھیں تو منظر کچھ اور طرح کا ہوگا۔ ان ساری مثالوں میں عادت اورتکرار کے دائرے سے باہر آنے کو ہی واضح کیا گیا، لیکن یار لوگوں نے انشائیہ کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے ٹانگوں میں سے سمندر کو دیکھنا، مرغا بننا قرا ردیا اور اس بات سے توبہ کی کہ وہ ایسے انشائیے لکھیں کہ جس میں مرغا بننا پڑے۔
ایسے مخالفین کے رویے پرمجھے وہ اندھا فقیر یاد آگیا جس سے کسی نے پوچھا بابا کھیر کھاؤ گے؟ فقیر نے پوچھا وہ کیسی ہوتی ہے ؟ جواب دیا گیا: دودھ جیسی سفید، پھر فقیر نے پوچھا: سفید رنگ کیساہوتاہے، سمجھایا گیا، بگلے کی طرح، پھر پوچھا گیا: بگلا کیسا ہوتاہے؟ مجبوراً ہاتھوں سے بگلے کا حدود اربعہ واضح کرنا پڑا اور اندھے فقیرنے ہاتھوں سے بگلے کی ساخت کو ٹٹول کر دیکھا اور توبہ توبہ کرنے لگا کہ یہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ میرے توحلق میںپھنس جائے گی۔ سو لکیر کے فقیر،عقل کے اندھوں کے حلق میں انشائیہ کی ٹیڑھی کھیر تاحال پھنسی ہوئی ہے اور جب تک ٹانگوں میں سے سمندر دیکھنے کو بگلے کی ساخت کی طرح دیکھتے رہیں گے یہ ٹیڑھی کھیر ان کے حلق میں پھنسی رہے گی۔
وزیر آغا کے انشائیوں کے پہلے مجموعہ ’خیال پارے‘ کے مطالعہ کے بعد پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی کو نہ صرف انشائیہ کی روح کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی بلکہ وزیر آغا کے انشائیوںمیں انہیں وہی رح کار فرما نظر آئی اور انہوں نے لکھا:
”انشائیہ نگاری کی بنیادی شرائط کو وزیر آغا نے ’خیال پارے‘ میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ موضوعات اور نگارش کو دونوں اعتبار سے ان کے یہاں انشائیہ کی روح ملتی ہے۔ وزیر آغا کے ان مضامین کو جوں جوں پڑھتے جائیے اَن جانی بوجھی اور روزانہ کی دیکھی اور آز مائی ہوئی چیزوں کے بارے میں احساس ہوگا کہ ہم انہیں پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ یا اس سے پہلے ہم نے انہیں اس زاویے سے کیوں نہ دیکھا۔ تازگی اور تازہ کاری کا یہ عنصر ان مضامین کا نمایاں وصف ہے۔“
خلیل الرحمن اعظمی کو انشائیہ کی تفہیم میں کوئی الجھن پیش آئی نہ وزیر آغا کے انشائیوں سے لطف اندوز ہونے میں کوئی تعصب آڑے آیا۔
انشائیہ کی ٹیڑھی کھیر جن یاروں کے حلق میں پھنسی ہوئی ہے۔ انہیں اب وزیر آغا کے لئے انشائیہ کے بانی کے الفاظ بھی بڑی اذیت دیتے ہیں —— حالانکہ جب وزیر آغا کے انشائیوں کا پہلامجموعہ ’خیال پارے‘ شائع ہوا تھا تو مولانا صلاح الدین احمد نے لکھا تھا:
”رفیقِ گرامی ڈاکٹر وزیر آغا چند دنوں سے ہمارے بعض بلند پایہ رسائل میں کچھ ایسے مضامین لکھ رہے تھے جنہیں پڑھ کر ناظرکی کیفیت کچھ اس بچے کی سی ہو جاتی ہے جو اسکول میں دیر سے پہنچا ہو اور جس نے ’گھر کا کام‘ بھی نہ کیاہو لیکن اس کے ہاتھوں پر بید پڑنے کی بجائے ان میں برفی اور قلاقند کے دو بڑے بڑے لفافے تھما دئیے جائیں۔میں کچھ عرصے تک ان کی اس شعبدہ بازی کا مطالعہ بڑی دلچسپی سے کرر ہا تھا لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اس یافتِ لطیف کو عام کیونکر کیا جائے۔ آخر ایک دن جب میں ان کا ایک پارۂ انشا —— غالباً ’لحاف‘ پڑھ کر اسی بچے کی سی کیفیت میں مبتلا تھا جس کا ذکر میں ابھی ابھی کر چکا ہوں، یہ تجویز یک بیک میرے ذہن میں آئی کہ آغا صاحب کے ان بکھرے ہوئے پاروں کو جمع کرکے ادب اردو کی ایک جدید ترین صنف کے اظہارِ اولین کے طور پر اہل ذوق کی خدت میں برملا پیش کردیا جائے۔“
(تقدیم- ’خیال پارے‘)
جب مولانا صلاح الدین احمد نے وزیر آغا کے انشائیوں کو ادبِ اردو کی ایک جدید ترین صنف کااظہار ِ اولین قرار دیا۔ اس وقت انشائیہ کا کوئی نام نہاد بانی آگے نہیں بڑھا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ جی یہ اس نئی صنف کا ’اظہار اولین‘ نہیں ہے، اس سے پہلے ہم اس صنف کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ اب ہر کوئی سہرا اپنے سر باندھنے پر تلا ہوا ہے۔
وزیر آغا کے انشائیوں کا دوسرامجموعہ ’چوری سے یاری تک‘شائع ہوا تو مشتاق احمد یوسفی نے لکھا:
”مضامین نو کا یہ مجموعہ اپنی تازگی اور توازن فکر و نظر کے لحاظ سے اردو ادب میں یادگار رہے گا.... (اگر یہ کہا جائے کہ) وزیر آغا اردو میں اس صنف ادب (ایسے) کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی تو بے جا نہیں ہوگا۔“
مشتاق یوسفی نے وزیر آغا کو پہلا اور آخری انشائیہ نگار قرار دیا، میرے خیال میں زمانی لحاظ سے یقینا وزیر آغا پہلے انشائیہ نگار ہیں اور کمال فن کے لحاظ سے آخری بھی۔ علامہ اقبال نے جب داغ کو جہاں آباد کا آخری شاعر کہا تھا تو زمانی لحاظ سے نہیں بلکہ کمالِ فن کے لحاظ سے کہا تھا۔
چل بسا داغ آہ میت اس کی زیبِ دوش ہے
آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے
پس وزیر آغا پہلے انشائیہ نگار بھی ہیں اور کمالِ فن کے لحاظ سے آخری بھی، لیکن انہوں نے اس صنف کے ارتقا میں اپنی ذمہ داریوں سے کبھی پہلو تہی نہیں کی۔ خود انشائیے لکھ رہے ہیں۔ انشائیے کی تفہیم کے لئے مضامین لکھ چکے ہیں اور نوجوان انشائیہ نگاروں کو متعارف کرا رہے ہیں۔ یوں محض تین دہائیاں پہلے مولانا صلاح الدین احمد کی یہ تمنا اور دعا اب ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔
’ ’مصنف نے ادب کی اس نئی پگڈنڈی پر جو چراغ روشن کیاہے اس کی جھلملاتی ہوئی روشنی میں ہمارے نئے لکھنے والے اور آگے بڑھیں گے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اپنے اپنے چراغ رکھتے چلے جائیں گے۔ ادب کی نئی منزلیں یوں ہی دریافت ہوئی ہیں اور راتوں کو چلنے والے مسافر اسی طرح اپنے اپنے ٹھکانوں تک پہنچے ہیں۔ سلام ہے ان پر جو کسی بامراد سفر کا آغاز کرتے ہیں اور مبارک ہیں وہ لوگ جو مسلسل منزلوں کی جستجو میں اپنے ذوق طلب کو کبھی پژمردہ و فسردہ نہیں ہونے دیتے۔“
معترضین اور مخالفین کی تمام تر منفی کاوشوں کے باوجود موجودہ اردو انشائیہ کے بانی وزیر آغا ہی رہیں گے۔ انشائیہ کی صنف بھی پھلتی پھولتی رہے گی، اس کے وسیع تر امکانات کو اخباری کالموں کی جملہ بازیوں اورتضحیک آمیز رویوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ خوشبو کو کون قید کر سکتاہے؟ وزیر آغا کے ساتھی اولین انشائیہ نگاروں میں پہلے ایک عرصہ تک گنتی کے چند نام آتے رہے۔ غلام جیلانی اصغر، جمیل آذر، مشتاق قمر، انور سدید—— پھر جب ادیبوں کی نوجوان نسل نے اس صنف کو سمجھا اور اس کے وسیع امکانات کی طرف نظر ڈالی تو انشائیہ نگاروں کی ایک کہکشاں سی بنتی چلی گئی! اکبر حمیدی، انجم نیازی، سلیم آغاقز لباش، حامدبرگی، محمد اسد اللہ، اقبال انجم، رعنا تقی، سعشہ خاں، فرح سعید رضوی،خالد پرویز، محمد اسلام تبسم، راجہ ریاض الرحمن، سلمان بٹ،خیر الدین انصاری، پروین طارق، مشتاق احمد اور ان کے علاوہ متعدد نئے لکھنے والوں نے کامیاب اور خوبصورت انشائیے تخلیق کئے۔ سینئر ادباءمیں سے بھی متعدد ادبا نے صنفِ انشائیہ کی طرف توجہ کی۔ اگرچہ ان کی انشائیہ نگاری پارٹ ٹائم ہے تاہم ان کے انشائیوں سے ہی اندازہ ہوتاہے کہ یہ ادبا انشائیہ کوسمجھتے بھی ہیں اور اسے لکھنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔ایسے سینئرادباءمیں جوگندر پال، غلام الثقلین نقوی، احمد جمال پاشا، محمد منشا یاد اور شہزاد احمد کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ انشائیہ نگاروں کی یہ کہکشاں دم بدم بڑھتی جارہی ہے۔ ماہنامہ ’چاند‘ میں چوری کی غزلیں چھپوانے والے کالم نگار یا کسی نفسیاتی مریض قسم کے ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں کہ انشائیہ کی خوشبو کو پھیلنے سے روک سکے۔
کر وہ زمانہ یاد کہ تھی آنکھ میں حیا
مابین دوستوں کے ابھی کچھ حجاب تھا
(وزیر آغا)
ہم تو خوشبوہیں ہمارا راستہ روکے گا کون
کس بلندی تک وہ دیواریں اٹھالے جائے گا
(اکبر حمیدی)
اردو انشائیہ کی تفہیم کے سلسلے میں اب تک مخالفت اورموافقت میں جو کچھ بھی لکھا جا چکا ہے، اس کامحاکمہ وزیر آغا کے مضمون ’اردو انشائیہ کی کہانی‘میںکردیاگیاہے اور انشائیہ کی تمام تر بحث میں تاحال یہ مضمون حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے۔
اردو انشائیہ کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے وزیر آغا نے اپنے مضمون ’اردو انشائیہ کی کہانی‘ میں لکھا ہے: ”میں اسے امتزاجی صنف کا نام دیتا ہوں جس میں کہانی کا مزہ، شعر کی لطافت اورسفر نامے کا تحرک یکجا ہو گئے ہیں۔تاہم انشائیہ محض ان اوصاف کی ’حاصل جمع‘ کا نام نہیں ہے، وہ ان سب کو اپنے اندر جذب کرکے خود ایک ایسی اکائی بن کر نمودار ہوتاہے جس کی انفرادیت ان جملہ اوصاف کی حاصل جمع سے کچھ ’زیادہ‘ ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے انشائیہ کا ایک اپنا اسٹرکچر ہے، جو اسٹرکچرنگ (STRUCTURING) کے عمل کو بروئے کار لاکر سدا نئے نئے امکانات کی طرف پیش قدمی کرتاہے۔“
میں اپنے اس مضمون کو وزیر آغا کے بعض انشائیوں اور دیگر اصناف میں ان کے فکری دھاروں کی مماثلت، ربط اور تعلق تک محدود رکھوں گاتاکہ انشائیہ میں دیگر اصناف کی ’حاصل جمع‘اور پھر اس ’حاصل جمع سے کچھ ’زائد‘کا منظر سامنے آسکے۔
انشائیہ ’آگ تاپنا‘ میں وزیر آغا لکھتے ہیں:
”شعلوں کی حرارت دھیرے دھیرے ہاتھوں سے ٹکراتی کسی گرم رو کی طرح میری رگ رگ میں اترتی چلی جاتی ہے تاآنکہ میرے سینے میں بھی ایک ننھی سی قندیل روشن ہو جاتی ہے۔ اب مجھے محسوس ہوتاہے گویا میں نے آتش لرزاں سے اکتساب نور کر لیا ہے اور خودبھی اس جلتی اور تڑپتی زندگی کاایک جزو لاینفک بن گیا ہوں۔ جیسے میری بے حس روح کا ہرتار، میرے منجمد جسم کا ہر عضو پگھل کر اس سیلِ آتشیں میں ضم ہو گیاہے۔“
نظم ’دھوپ‘ میں شعلوں کی حرارت، دھوپ کی حرارت بن جاتی ہے۔
کہا میں نے —— آ
اپنے برفاب گھر کے مقفل کو اڑوں کو توکھول کر
اس سمندر کو تک
جو خنک تیرگی کی سیہ باڑ کو پار کرکے
ترے گھر کی دہلیز تک آگیاہے!
.... ہاتھ اپنے ہلا کر اسے اپنی جانب بلا
اپنے خستہ بدن پر سے تو اپنی میت کا پتھر ہٹا
گھاس کو اذن دے وہ حسیں سبز قالین اپنا بچھائے
درختوں پہ گجرے نظر آئیں، طائر چہکنے لگیں۔
برف پگھلے،
غصیلی، سرافراز، بے رحم، ٹھنڈی ہوا اپنے گھر کو سدھارے
دکھی فرش سے مادر اعرش تک
دھوپ کا اک سمندر رہے موجزن
انشائیہ ’آگ تاپنا‘ میں وزیر آغا لکھتے ہیں۔
’میں دیکھتا ہوں ہوں کہ انگیٹھی کی بعض لکڑیاں بیک وقت دونوں اطراف سے جل رہی ہیں۔ یہ لکڑیاں ایک وقت میں روشنی کا بہت بڑامنبع کہلاتی ہیں لیکن بہت جلد ختم بھی ہو جاتی ہیں، ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو اپنی حیاتِ مختصر کو مٹھیاں بھر بھر کر لٹاتے ہیں اور مختصرسے عرصے میں کسی شہابِ ثاقب کی طرح جلتے دوڑتے ابدی تاریکیوں میں گم ہو جاتے ہیں لیکن جن کی درخشندہ گزر گاہ افلاک کو بڑی دیر تک منور رکھتی ہے۔‘
اب نظم ’انگیٹھی‘ کی چند لائنیں دیکھیں، نظم اور انشائیہ کے مضمون میں ہم آہنگی کے باوجود انشائیہ میں ’کچھ زائد ’یا ‘ چیزے دیگر صاف نظر آرہی ہے:
بدن اس کا
ہزاروں سرخ پھولوں سے فروزاں تھا
تمازت اور خوشبو —— دوجواں سکھیاں
اسے سرگوشیوں میں چھیڑتی تھیں——
—— اور اب چاروں طرف
یخ بستگی ہے۔
بکھرتی راکھ نے سب سرخ پھولوں کو بجھایا ہے۔
تمازت اور خوشبو
دم بخود ہیں
انشائیہ ’چیخنا‘ میں وزیر آغا نے گاڑی کے انجن کی چیخ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’میں جب اس چیخ کو سنتا ہوں تو مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور نجانے کیوں مجھے اپنا بچپن یاد آجاتاہے۔ یقینا ریل کی اس چیخ کا میرے بچپن سے کوئی گہرا تعلق ہے لیکن کیا تعلق ، یہ بات میں نہیںجانتا۔‘
ریل کی چیخ کا وزیر آغا کے بچپن سے جو گہرا تعلق ہے اس کا بھید ایک عرصہ کے بعدنظم ’ٹرمینس‘ میں آکر کھلتاہے۔
’چھنی کچھی کی بو سونگھ کر کالے انجن نے
فرط مسرت سے
اک چیخ ماری تھی
اور اس کی کالی جٹاؤں نے
پیچھے کی جانب کو اُڑکر
گھسٹتی ہوئی ریل کے تن بدن کو چھوا تھا
دُھواں ریل کے پیٹ میں بھر گیا تھا
مگر پھر اچانک مجھے میرے بابا نے
پینک سے بیدار ہو کر کہا
لو سفر کٹ گیا
اب اٹھو
گاڑی رکنے کو ہے اپنی چیزیں سنبھالو
زمیں پر اتر کر، اسے دیکھ کر
اپنی حسرت نکالو
وزیر آغا کی نظموں اور انشائیوں میں ربط اور ہم آہنگی کے چند نمونے دیکھنے کے بعد اب بعض دوسری اصناف میں انشائیوں سے ربط اور ہم آہنگی کی چند مثالیں بھی دیکھتے ہیں۔
’اردو شاعری کا مزاج‘ میں وزیر آغا نے آریاؤں اور دراوڑوں کی آویزش کو تاریخ کے آئینے سے دکھایا ہے، اب اسی تاریخی حقیقت کو انشائیے کے آئینے میں دراڑوں کے موقف کے طور پر دیکھئے۔
’آریاجب ہم پر حملہ آور ہوئے اور ہمارے قلعوں کو برباد کرتے چلے گئے تو جواباً اور انتقاماً ہم نے بھی ان کے مویشی چُرانے شروع کردئیے۔ وہ سارا دن لڑنے بھڑنے کے بعد جب رات سمے آرام کرتے تو ہم شب خون مار کر ان کے مویشی اڑالے جاتے۔ یقین جانو ہم نے انہیں اس قدر پریشان کیا کہ وہ اپنے اشلوکوں میں برکھا اور فرزند کے لئے دعائیں مانگنے کے بجائے ہمیں بد دعا ئیں دینا شروع ہوگئے۔‘
(انشائیہ ’چوری سے یاری تک‘)
فکری سطح پر کائنات میں ثنویت کی کرشمہ سازی وزیر آغا کا پسندیدہ موضوع ہے اور وہ اس مسئلے پر کئی زاویوں سے لکھ چکے ہیں۔ خیر اور شر، زمین اور آسمان، روشنی اورتاریکی، زندگی اور موت، روح اورمادہ، یزداں اور اہرمن، ین اور یانگ، مرد اورعورت اور ان جوڑوں میں ایک عجیب اورحیرت انگیزمماثلت پائی جاتی ہے، کم و بیش ہر جوڑے میں ایک کردار کا مزاج مرد کی طرح ہے تو دوسرے کا مزاج عورت کی طرح —— مرد اورعورت کے حوالے سے ثنویت کی کرشمہ سازی وزیر آغا کے انشائیوں میں بھی جا بجا نظر آتی ہے۔
’سڑک نے مرد کی سی بے قراری اور سیمابیت پائی ہے .... فٹ پاتھ عورت کی طرح چنچل، ملائم اور سست گام ہے۔‘
(انشائیہ ’فٹ پاتھ‘)
’تقسیم کا وصف عورت کی فطرت میں شامل ہے جس طرح دھرتی ایک بیج کو سینکڑوں میں تقسیم کردیتی ہے اور درخت خود کو لاکھوںپتوں اور شاخوں میں بانٹ دیتاہے، بعینہ عورت ازل سے اپنے گھر کو کوٹھڑیوں اور سامان کو پوٹلیوں میں تقسیم کرتی آئی ہے۔‘
(انشائیہ ’سیاح‘)
بحیثیت نقاد وزیر آغا کے ناقدانہ خیالات بھی ان کے انشائیوں میں جذب ہوگئے ہیں۔ نثری نظم کے بارے میں وزیر آغا کا موقف ایک کھلی حقیقت ہے۔ ایک انشائیے میں اس کا ذکردیکھیں۔
’بہادری ایک ناتراشیدہ جذبہ ہے جو سطحیت میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کے پس منظر میں کسی ذہنی ارتقا کے نقوش نہیں ملتے۔ اس کے برعکس بزدلی انسان کے تدریجی ، ذہنی اور سماجی ارتقا کانتیجہ ہے۔ نثری نظم کے طرح بزدلی بھی مستقبل کی چیز ہے۔‘
(انشائیہ ’بہادری‘)
انشائیہ ’غزل‘ میں قصیدے کی پسلی سے غزل کی پیدائش کی کہانی آدم کی پسلی سے حوا کی پیدائش کے مذہبی تصور کی طرف واضح اشارہ ہے۔
شاعری، تاریخ، فلسفہ مذہب، تنقید،کہانی —— وزیر آغا کے انشائیے ان سب کی حاصل جمع ہی نہیں بلکہ ان میں کچھ ’زائد‘ کامنظر دور سے ہی چمکتا ہوا نظر آجاتا ہے۔ تاہم وزیر آغا کے انشائیے اس لحاظ سے ’پرسنل ایسے‘ بھی ہیں کہ ان میں ان کی شخصیت، ان کے خیالات، ان کا مزاج دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ بلکہ ان کا مزاج جسے انشائی مزاج کہنا چاہے، ان کی تنقید کے اسلوب پر بھی چھا گیا اور ان کی دیگر تخلیقات میں بھی یہی انشائی مزاج کار فرما نظر آتاہے۔
وزیر آغا کے انشائی مزاج کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے ایک اچٹتا سا اشارہ کیا تھا:
’سخت سے سخت بات کو نرم انداز میں کہنے کا یہ طرز کم کم ادیبوں کو نصیب ہوتاہے۔ وہ لڑتے ہیں مگر اس سادگی سے کہ اپنی تلوار کو بے نیام نہیں ہونے دیتے۔ مزاح ان کے لئے سیف نہیں، سپر ہے۔‘
زہریلے طنز نگار اور لٹھ بردار مصلحین ادب اسی لئے انشائیہ لکھنے پر قادر نہیں ہو سکے کہ ان کا مزاج غیر انشائی ہے۔ انشائیہ لکھنے کے لئے جس صوفیانہ رواداری اور بے نیازی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے نصیب میں نہیں۔
مولانا صلاح الدین احمد نے ’خیال پارے‘ کی اشاعت کے وقت جب اردو میں انشائیہ کی نئی صنف کا خیر مقدم کرتے ہوئے چراغ سے چراغ جلتے چلے جانے کی تمنا کی تھی تب وزیر آغا کو بھی گمان نہ تھا کہ اگلے تیس برسوں میں ہی یہ صنف اپنی جڑیں مضبوط کر لے گی اور اب کہ چاروں طرف مخالفت کی شدید آندھیاں چل رہی ہیں جو اس نئی صنفِ ادب کے پودے کو جڑ سے اکھیڑ دینے پر تلی ہوئی ہیں۔ وزیر آغا پورے وثوق سے کہہ رہے ہیں:
’ہمارے ہاں بعض اصناف ادب پر دیگر فنون کا غلبہ صاف محسوس ہورہاہے مثلاً شاعری پر موسیقی کا اور کہانی پر فلم کا، لیکن انشائیہ وہ واحد صنف ہے جو اپنی انفرادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس میں اختصار کادامن وسیع ہے اور خود اس کے اندر امکانات کا یہ عالم ہے کہ اسے کسی اور فن لطیف کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والی صدیوں میں انشائیہ وہ واحد صنف نثر ہے جو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے باعث کامیاب ہو گی اور اپنی ہیئت اور مواد دونوں میں ایجاز و اختصار کو ملحوظ رکھنے کے باعث آنے والے زمانوں کے قدموں سے قدم ملا کر چلنے میں کامیاب ہوگی۔‘(’اردو انشائیہ کی کہانی‘)
وزیرآغا کا یہ دعویٰ اور یہ یقین در اصل اعتماد کا اظہار ہے، مخالفت کے باوجود اردو انشائیہ کی حوصلہ افزا صورت حال پر بھی اور اپنی انشائیہ نگاری پر بھی۔
مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں اپنی زندگی میں ہی انشائیہ کے خلاف اڑائی گئی گرد کو ختم ہوتے دیکھ سکوں گا۔ تب اردو انشائیہ کے فروغ کے لئے وزیر آغا کی خدمات اور ان کی انشائیہ نگاری کو صاف اور اجلے تناظر میں زیادہ بہتر طور پر دیکھا جاسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔