نصرت ظہیر۔۔حیدر قریشی
نوٹ:
نصرت ظہیر صاحب کی طرف سے اصل بات صرف اتنی تھی کہ ان کے خیال میں عکاس انٹرنیشنل کے گوپی چند نارنگ نمبر میں ان کا جو اقتباس دیا گیا ہے وہ سیاق و سباق سے کاٹ کر دیا گیا ہے اور اس طرح جعلسازی کی گئی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے بات اپنی صفائی تک محدود نہ رکھی اور متعدد غیر متعلق باتیں اٹھاتے چلے گئے۔میں نے بعض غیر متعلق باتوں کے سلسلہ میں تھوڑی بہت وضاحت کر دی،تاہم پوری توجہ نصرت ظہیر صاحب کے ’’سیاق و سباق ‘‘سے کاٹ کر جعلسازی کرنے کے الزام اور ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کے سرقوں پر مرکوز رکھی۔بہت سی غیر متعلق باتوں اور طنزیہ جملوں کا میں نے جواب دینے سے گریز کیاکہ اس سے بحث اصل مسئلہ کے موضوع کے مدار سے باہر نکل جاتی۔یہ ساری خط و کتابت جونصرت ظہیر صاحب نے خود اوپن مکالمہ کی صورت میں شروع کی تھی،ریکارڈ کے طور پر محفوظ کر رہا ہوں۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت ظہیر صاحب کی پہلی ای میل ۲۹جون ۲۰۰۹ء کو جرمن ٹائم کے مطابق نو بج کر پچیس منٹ پر ریلیز ہوئی اور ۲۹جون ہی کو ٹھیک دو گھنٹے کے بعد گیارہ بج کر پچیس منٹ پر میرا جواب ریلیز کر دیا گیا۔دونوں میلز کا متن پیش خدمت ہے۔
نصرت ظہیر بنام حیدر قریشی۔۱
محترم حیدر قریشی صاحب! آداب
میری مصروفیتیں حسبِ معمول بڑھی ہوئی ہیں اس لئے آپ کا بھیجا ہوا ‘‘نارنگ مخالف عکّاس نمبر’’ ابھی تک پورا نہیں پڑھ سکا ہوں اور نہ ہی اب میرا اسے مزید پڑھنے کا ارادہ ہے کیونکہ اتنا فضول وقت میرے پاس نہیں ہے۔یہ تو میں جانتا تھا کہ آپ نارنگ صاحب کے بعض وجوہ کی بنا پر( جن کا پورا علم شایدآپ ہی کو ہوگا) شدید مخالف ہیں، لیکن آپ اس قسم کی بد دیانتی بھی کر سکتے ہیں، یہ میرے لئے نیا اور خاصا تکلیف دہ تجربہ اس لئے ہے کہ اب تک میں آپ کا اورآپ کی معروضیت کا خاصا معترف رہا ہوں اور اس کا اپنی بعض تحریروں میں اعتراف بھی کر چکا ہوں۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے اپنے خیالات میں کچھ ترمیم کرنی پڑے گی۔
نارنگ صاحب کی اندھی مخالفت میں آپ نے میرے ایک مزاحیہ مضمون کے اقتباسات کو اس انداز سے ساتھ رکھ کر اس ‘نمبر’ میں شائع کیا گویا یہ تحریریں گوپی چند نارنگ صاحب کے خلاف ہیں۔حالانکہ وہ ادب کی عمومی صورتِ حال پرسادہ سا طنز تھا۔ اس میں آپ کو مابعدِ جدیدیت کے پیچھے نارنگ صاحب تو نظر آگئے، جدیدیت کے ڈھونگ کے پیچھے شمس الر حمن فاروقی صاحب کی ذاتِ بے برکات نظر نہیں آئی۔آپ کے معروضی اندازِ فکر پر کچھ شبہ مجھے اس وقت ہوا تھا جب آپ شب خون کے خبرنامے میں چھپنے والے اپنے خط سے ‘کئی چاند تھے سرِ آسماں ’ پر کئے گئے اعتراض سے متعلق پیراگراف حذف کرنے کی فاروقی صاحب کی حرکت پر خاموشی اختیار کر گئے تھے۔ آپ جیسا ٹچیtouchyشخص اس پر کیوں چپ رہ گیا یہ میرے لئے حیرت کا مقام ہے۔
آپ کو اور عمران بھنڈر صاحب کو نارنگ صاحب کی کتاب میں سہواً بعض اقتباسات کے حوالے نہ دئے جانے پر سرقہ کا شبہ نہیں بلکہ یقین ہوگیا، لیکن میرے مضمون کوغلط سیاق و سباق میں شرارتاً اس طرح پیش کرنے میں غالباً آپ کوکچھ بھی غلط محسوس نہیں ہو ا ہوگا حالانکہ یہ کھلی جعل سازی ہے جو سرقے سے بھی درجہ میں‘برتروافضل’ ہوتی ہے۔
آپ کو اس بات میں تو پکّی فرقہ پرستی نظر آگئی کہ ایک مضمون نگار نے ‘ادب ساز’میں چھپنے والے ایک مضمون میں آپ کے پاکستان میں معتوب مذہبی مسلک کا ذکر کرکے آپ کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی تھی لیکن خود آپ کی ادارت و معاونت سے چھپنے والے اس ‘نمبر’میں نارنگ صاحب پر جگہ جگہ فرقہ پرستی اور زعفرانیت کے کھلے الزام کسی ثبوت کے بغیر لگا ئے گئے ہیں اس میں نہ آپ کو کسی طرح کی ناانصافی دکھائی دی نہ شرم آئی۔یہاں تک کہ نارنگ صاحب کی دوسری شادی کے تعلق سے ان پر below the beltحملہ کرنابھی غالباً آپ کے لئے ایک شریفانہ اور مہذب حرکت ہے۔ ‘ادب ساز’ والے مضمون نگار کی حرکت آپ کو متعصبانہ لگی(اور در حقیقت وہ تھی بھی)لیکن ‘عکاس’کی زہریلی تحریریں آپ کو قند، بلکہ قلاقند لگ رہی ہیں۔میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ نارنگ صاحب کی کسی تحریر یا تقریر میں آپ مجھے مذہبی تعصب یا اردو دشمنی کے دو جملے بھی دکھا دیجئے، میں آپ کا غلام ہو جاوں گا۔
یہ آپ نے یا شاید عکاس کے مدیر نے درست لکھا ہے کہ عمران بھنڈر صاحب کو اب تازندگی اس بات کے لئے یاد کیا جائے گا کہ انہوں نے نارنگ صاحب کو سارق قراردیتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا۔ میں اس میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ عمران صاحب صرف اسی ایک‘ کام’ کے لئے جانے بھی جائیں گے۔مسقبل میں انہیں کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کی سعادت شاید ہی حاصل ہو۔
آپ نے میرے مضمون کے ساتھ دنیا بھر میں یہ ‘عکاس’بھیجا ہے اس لئے ان سبھی کو میں اپنا جواب بھی ای میل سے بھیج رہا ہوں۔
امید ہے بخیر ہوں گے۔
نصرت ظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی بنام نصرت ظہیر۔۱
برادرم نصرت ظہیر صاحب سلام مسنون
آپ کی ای میل پڑھ لی ۔شکریہ۔مجھے اس کے جواب میں چند وضاحتیں کرنا ضروری لگ رہا ہے۔
پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ اعتراف کیا کہ آپ نے میرے خلاف جو غلیظ مضمون شائع کیا تھا اس میں فرقہ پرستانہ تعصب تھا۔پہلی ای میلز کے ذریعے بھی اور ٹیلی فون کی گفتگو میں بھی آپ نے خود بتایا تھا کہ میرا گوشہ چھاپنے پر نارنگ صاحب نے آپ سے ایک سے زائدبار پوچھا تھا کہ اس شخص کی کیا ادبی حیثیت تھی جو اس کا گوشہ شائع کیا؟ آپ نے جو جواب دیا وہ میں نہیں دہراؤں گا،آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میری تخلیقات کے حوالے سے آپ کا کیا تاثرہے۔نارنگ صاحب نے آپ سے کس لیے جواب طلبی کی تھی اور انہیں یہ استحقاق کس بنیاد پر ادب ساز کے مدیر نے دیا تھا وہ آپ دونوں کا آپسی معاملہ ہے۔وہ غلیظ مضمون جو آپ کو فروری۲۰۰۹ء میں موصول ہوا وہ دسمبر ۲۰۰۸ء تک کے ادب سازمیں اسے لیٹ چھاپ کر کیسے شامل کیا گیا۔ایک مضمون جس کے فرقہ پرستانہ ہونے کا آپ بھی اعتراف کرتے ہیں،تاخیر سے ملنے کے باوجود کس کے کہنے پر شامل کیا گیا؟
آخر اس مضمون میں کونسی ایسی بات تھی جس کی وجہ سے آپ کو رسالہ دو مہینے لیٹ کرکے بھی اسے شامل کرنا پڑا۔ اس شخص کی اصلیت کے طور پر جب میں نے آپ کو پرواز لندن کے شمارہ اپریل ۲۰۰۲ء میں چھپنے والا مضمون ادب کے کھیپیے بھیجا تو آپ نے خود مانا کہ ہاں اس شخص نے فارسی سے چوریاں کی ہیں۔تو صاحب! نارنگ صاحب کے دفاع میں آپ نے ایسا مضمون شائع کیا جو غلیظ اور فرقہ پرستانہ بھی تھا اورایسے شخص کا لکھا ہوا تھا جو خود فارسی سے چوریاں کرکے نقاد بنا بیٹھا تھا۔گویا نارنگ صاحب کی چوریوں کی صفائی وہ دے رہے ہیں جو خود چوریاں کر چکے ہیں اور جن کی چوریاں بھی آن ریکارڈ ہیں۔ سب کہو سبحان اللہ!
میں یہاں کھل کر اعتراف کرتا ہوں کہ اس نمبر کی اشاعت میں میرا پورا تعاون شامل تھاتاکہ آنے والے وقت میں اس کے گناہ یا ثواب میں مجھے پورا شامل رکھاجائے۔ اس وقت پبلک ریلیشننگ کے بل پر جتنی کاری گری دکھا دی جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر نارنگ کے سرقے علمی و ادبی طور پر آشکار ہو چکے ہیں۔متعدد عام اقتباسات کو نظر انداز کرتے ہوئے عکاس کے نارنگ نمبر میں پیش کیے گئے تین اہم ترین سرقوں کے شواہد یہاں بھی دہرا دیتا ہوں۔
۱۔نارنگ صاحب کی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۳سے کے کر ۳۳۴تک صرف بیس صفحات بھی ایسے نہیں ہیں جو انگریزی کتابوں کا لفظ بلفظ ترجمہ نہ ہوں۔۲۔رامن سیلڈن کی کتاب Contemporary Literary Theoryسے جو سرقہ کیا گیا ہے وہ ساٹھ صفحات سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔۳۔ ٹیرنس ہاکس کی کتاب Structuralism and Semiotics پیراگرافس کے معمولی ادل بدل کے ساتھ پوری کی پوری اپنی کتاب میں شامل کر لی ہے۔دو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے لیکن نارنگ صاحب ابھی تک اپنے سرقوں کے بارے میں کھل کر کچھ بھی نہیں کہہ سکے
متعدد مغربی مفکرین کے اتنے فراخدلانہ سرقے کر لیے اور سمجھ لیا کہ اپنے حاشیہ برداروں کے تعاون سے دھونس جما کر الزام سے بریت حاصل کر لیں گے۔نہیں صاحب! یہ سرقے اب نارنگ صاحب کی علمی و ادبی حیثیت کا فیصلہ کریں گے۔ ان سے مفادات وابستہ رکھنے والے لوگوں کے ذریعے سے نہیں بلکہ وقت ان کے خلاف فیصلہ صادر کر ے گا اور اپنے ذاتی مفادات کی سطح سے بلند ہو کر سنئے تو وقت ان کے سرقوں کا فیصلہ سنا رہا ہے۔اب کوئی بڑے سے بڑا ایوارڈ،کوئی بڑے سے بڑا اعزاز بھی ان کے سرقوں کی سیاہی کو نہیں دھو سکتا۔یہ سب عارضٰ شعبدے ہیں ،حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے۔
جہاں تک آپ کے اقتباس کو سیاق و سباق سے کاٹ کر شامل کرنے کی دہائی کا تعلق ہے،یہ سراسر جھوٹ اور دھوکہ ہے جو آپ دنیا کو دینا چاہ رہے ہیں۔آپ کا اقتباس صافٖ ظاہرکرتا ہے کہ اس کا روئے سخن کس کی طرف ہے۔آپ کا اقتباس میں پیش کر رہا ہوں۔
’’اردو زبان و ادب کی جتنی خدمت ادبی معموں نے کی ہے اتنی ہمارے خیال سے کسی نے بھی نہیں کی ہو گی۔یہاں معموں سے ہماری مراد وہ چلتی پھرتی محترم شخصیتیں ہر گز نہیں ہیں جن کے نام کے ساتھ پروفیسریا ڈاکٹر کا لاحقہ جڑا رہتا ہے اور جنہوں نے جدیدیت،مابعد جدیدیت اور ساختیات و پسِ ساختیات کے چکرمیں ڈال کرخود اردو ادب کو ایک معمہ بنا ڈالا ہے۔۔۔۔اُس زمانے میں ادبی معمے اردو والوں کو اور بھی کئی خرافات سے دور رکھتے تھے۔نہ انہیں اس کی فکر رہتی تھی کہ کس اردو اکادمی نے اس مرتبہ کس غیر مستحق ادیب کو ایوارڈ سے نوازا ہے اور نہ وہ اس بحث میں پڑتے تھے کہ ما بعدالجدیدیت اور ساختیات و پسِ ساختیات کی اوّلین دریافت کا سہرہ کس کے سر باندھا جائے۔نیز یہ کہ جدیدیت کے بعد ما بعد جدیدیت آئی ہے تو کیا اس اصول کے تحت مابعد جدیدیت کے بعد مامابعد جدیدیت آئے گی؟اور کیا سن ۲۱۵۵ء تک آتے آتے اردو ادب میں ماماماما ما ما مابعد جدیدیت پڑھی جا رہی ہو گی؟ ‘‘
(نصرت ظہیر کے طنزیہ اردو کے ادبی معمے سے اقتباس)
اس اقتباس کا روئے سخن کس طرف ہے قارئین خود اندازہ کر سکتے ہیں۔البتہ اس کے جس سیاق و سباق کو کاٹ کر اسے لگانے کا آپ الزام لگا رہے ہیں،یہ سراسر غلط ہے۔آپ خود اس اقتباس کے سیاق و سباق کو ملا کر اسی طرح ریلیز کر دیں دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے گا۔آپ کے اقتباس کوہر گز ہر گز کسی سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش نہیں کیا گیا۔ یہ شاید آپ ڈاکٹر نارنگ کے عتاب سے بچنے کے لیے لکھ کر اپنی بریت کرانا چاہ رہے ہیں۔
جب شمس الرحمن فاروقی صاحب اردو کونسل میں گئے تھے تو انہوں نے وہ ہندی رسالہ بند کرا دیا تھا جو اردو کے نام پر چھپ رہا تھا۔اس وجہ سے آپ کو بے روزگار ہونا پڑا۔ آپ کو معلوم ہے کہ مجھے آپ کی بے روزگاری کا کتنا دکھ ہوا تھا۔اردو کے نام پر ہندی رسالہ نکالنا تو شاید مستحسن نہ تھا،تاہم میں سمجھتا ہوں کہ آپ سمیت تمام متاثرین کی ملازمتوں کو پورا تحفظ دیا جانا چاہیے تھا۔میں اسے فاروقی صاحب کی زیادتی سمجھتا ہوں۔اس سے زیادہ مجھے فاروقی صاحب کے معاملہ پر کچھ نہیں کہنا لیکن آپ نے جو ٹچ دینے کی کوشش کی ہے تو اتنا واضح کرتا ہوں کہ میں نے ان کی انتہا پسند جدیدیت کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا تھا اس پر اب بھی قائم ہوں ۔ہاں مجھے ان کے ناول پر لکھے ہوئے اپنے مضمون کے چند جملوں کے حذف ہونے کے بعد خود احساس ہوا کہ ان کے ناول پر لکھتے ہوئے اس حصے کا حذف کر دیا جانا ہی بہتر ہے۔سو یہ اپنے لکھے پر مزید غورکر لینے کا میرا حق تھا۔ چنانچہ میں نے اس مضمون میں مزید اضافہ بھی کیا۔ ناول پر لکھے ہوے میرے سبقِ اردو والے مضمون کے مقابلہ میں جدید ادب شمارہ ۱۱،جولائی ۲۰۰۸ء میں چھپنے والا مضمون پہلے سے زیادہ طویل اور نظر ثانی شدہ ہے۔ یہ ویسا ہی کچھ یا ملتا جلتا سا ہے جیسے آپ نے میرے بارے میں لکھنے کے بعد اور مجھے مضمون بھیجنے کے بعد پھر یہ چاہا تھا کہ ایک دو جملے تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے مضمون نگار کی حیثیت سے اسے آپ کا حق سمجھا تھا،کوئی اعتراض نہ کیا تھا ۔
جہاں تک نارنگ صاحب کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بعض گوشوں کو سامنے لانے کا تعلق ہے،اسے نارنگ صاحب نے ری باؤنڈ پر حاصل کیا ہے۔آپ نے نارنگ صاحب کے دفاع کے نام پر وہ غلیظ مضمون شائع نہ کیا ہوتاتو عکاس کا نارنگ نمبر بھی نہیں آتا،یہ ذاتی باتیں بھی نہ آتیں۔سو اگر آپ نے وہ مضمون نارنگ صاحب کے اشارے پر شائع نہیں کیا تھا تو عکاس کے اس نارنگ نمبر کی اشاعت میں آپ کا ثواب بھی شامل ہے۔آنے والے وقت میں شایدآپ خود بھی اس بات پر خوش ہوں گے۔
آپ کے خط کا اصل حاصل یہ ہے کہ آپ کا اقتباس سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔سو یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے۔میں نے آپ کا اقتباس سب کے سامنے پیش کر دیا ہے۔اس کا سیاق و سباق پیش کرکے اپنی سچائی ثابت کیجیے۔اس اقتباس سے وہی تاثر پیدا ہورہا ہے جو آپ نے پیدا کیا تھا۔نارنگ صاحب کے سرقوں سے توجہ ہٹائے جانے والی غیر ضروری بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کے سرقوں کے مدلل ثبوتوں کا علمی مضمون کی صورت میں خود جناب نارنگ صاحب کا جواب ہی صورتحال کو واضح کرے گا۔ کسی نیازمند کے چند جملوں یا کسی بد زبان کی گالیوں سے نارنگ صاحب کے سرقوں کی بریت ممکن نہیں ہے۔
یہ جواب عجلت میں لکھ رہا ہوں ،کہیں کوئی لفظ آپ کی نسبت سخت لکھا گیا ہو تو اس پر معذرت کیے لیتا ہوں۔آپ مجھے بہت عزیز ہیں،آپ نے دکھ بھی بہت دیا ہے لیکن آپ کاپہلا پیار بھی میرے لیے بہت ہے۔اب بھی مجھے عزیز ہیں،میں آپ کی مجبوریوں کو بھی سمجھتا ہوں۔لیکن ہم اردو ادب میں سرقہ اور جعلسازی کے حوالے سے ایک تاریخی اور فیصلہ کن دور سے گزر رہے ہیں،یہاں کسی تاریخی غلطی کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔آپ جن پریشانیوں اور مجبوریوں میں ہیں،ان سے آپ کو نجات عطا فرمائے۔آمین۔مجھ گنہگار کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے۔
آپ کا بھائی
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میل کا جواب نصرت ظہیر صاحب نے اگلے دن ۳۰جون کوجرمن وقت کے مطابق رات کو آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر ریلیز کیا۔ اورنصرت ظہیر صاحب کے جواب میں میں نے دو گھنٹے کے اندر دس بج کر چودہ منٹ پر اپنی میل ریلیز کر دی۔
نصرت ظہیر بنام حیدر قریشی۔۲
محترم حیدر صاحب، آداب!
آپ کے جواب میں کئی باتیں غیر درست اور غیر واضح ہیں ، ان کی تصحیح کر لیجئے:
1۔ ادب ساز کے گوشے پر نارنگ صاحب کے علاوہ اور کئی لوگوں نے بھی یہی بات پوچھی تھی کہ ان پر گوشہ کیوں؟سب سے جواب میں میں نے وہی کہا جو ادب ساز میں لکھا تھاکہ برصغیر سے باہر زندگی گزارنے والے دو اہم ہندوستانی ادیبوں ( ستیہ پال آنند اور آپ) پر گوشے نکالنا مقصود تھا اس لئے!
2۔نارنگ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں۔انہوں نے نہ کبھی مجھ سے جواب طلبی کی نہ وہ خود کو اس کا مجاز سمجھتے ہیں کہ کسی سے جواب طلبی کریں۔ انہوں نے ادب ساز میں بھی کبھی کوئی مداخلت نہیں کی اور نہ کبھی کریں گے۔
3۔ جس مضمون کو آپ غلیظ کہہ رہے ہیں وہ تب موصول ہوا تھا جب رسالے کی اشاعت میں پہلے ہی کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ پہلے مضمون نگار نے فون کیاتھا ، تب انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنا مضمون ای میل سے کمپوز کی ہوئی صورت میں بھیج دیں تو شاید وہ چھپ جاے کیونکہ رسالہ بہت لیٹ ہو چکا ہے۔ انہوں نے جو فائل بھیجی وہ شاید کھلی نہیں۔ تب انہوں نے دوبارہ مضمون بھیجا۔ اس مضمون میں خاصی کاٹ چھانٹ کی اور اس پر اپنی رائے بھی چھاپ دی تھی۔نارنگ صاحب اس بیچ میں نہ کہیں تھے نہ ہیں۔آپ دراصل نارنگ دشمنی کے زہریلے نشے میں پوری طرح ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور اس میں آپ کو سب کچھ ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں اور جس سے آپ کا نشہ اور گہرا ہو جائے۔نہ وہ شمارہ اس مضمون کی وجہ سے لیٹ کیا گیا نہ ایسا کرنے کا کوئی جواز تھا۔
4۔ سرقے کے معاملے میں نارنگ صاحب اپنی پوزیشن پہلے ہی واضح کرچکے ہیں جو ظاہر ہے آپ کی سمجھ میں کبھی نہیں آئے گی کیونکہ آپ نے تو نیت باندھ رکھی ہے ان کی مخالفت، اور شمس الرحمن فاروقی صاحب کے ذاتی متعصبانہ ایجنڈے کو پورا کرنے کی۔
5۔میرا مزاحیہ مضمون شمع اور دیگر اردو رسائل میں کسی زمانے میں چھپنے والے ادبی معموں اور اس سے جڑی ہوئی ‘اردو صنعت’ کے بارے میں تھا اور میری تازہ ترین کتاب ‘نمی دانم’ میں بھی شامل ہے جو پینگوئن بکس نے چھاپ دی ہے اور جس کے بیک کورپر میرے بارے میں نارنگ صاحب نے توصیفی کلمات سے بھی نوازا ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے بھی کئی جگہ چھپ چکا ہے ، کئی مجلسوں میں پڑھا جاچکا ہے، ریڈیو پر بھی آیا ہے، مگر کبھی کسی نے یہ بات نہیں سوچی جو آپ نے سوچ لی۔ میں نے کسی شخصیت کا نہیں شخصیتوں کا ذکر کیا تھا۔ صیغہ جمع میں۔ دھوکا دنیا کو میں نہیں آپ دے رہے ہیں۔چنانچہ نارنگ صاحب کے عتاب سے بچنے کی کوشش والی آپ کی بات ، آپ کے خط کا سب سے مضحکہ خیز جملہ ہے۔ شاید آپ بھی اس جملے کی مضحکہ خیزی کو محسوس کر رہے ہوں۔
6۔فاروقی صاحب نے جب ‘اردو درپن’ صرف نارنگ دشمنی کی وجہ سے بند کرایا تھا تب میں قومی آواز کے چیف رپورٹر کے عہدے پر فائز تھا اور بے روزگار ی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔کوئی اور ملازم بھی بے روزگار نہیں ہوا تھا۔یاد کیجئے آپ کو کسی اور بات پر دکھ ہوا ہو گا۔ میں اس رسالے کا اعزازی مدیر تھا اور چونکہ اسے ایک یادگار مجلّہ بنانے کی کوشش میں خود کو جذباتی حد تک involveکر چکا تھا اس لئے رسالے کے بند ہونے کا مجھے اس قدر صدمہ پہونچا کہ دو روز تک قومی آواز کے دفتر بھی نہیں گیا۔ فاروقی صاحب کس قدر بد طینت اور لسانی تعصب میں مبتلاشخص ہیں یہ میں اچھی طرح جان گیا تھا۔ تب ان کا شب خون زندہ تھا اور وہ عرصے سے اردو درپن کے خلاف محاذ کھولے ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اردو کے کسی ادارے سے ہندی رسم الخط میں کوئی رسالہ نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اردو کا رسم الخط بدلناچاہتی ہے۔ حالانکہ رسالے میں ہندی والوں کو اردو سکھانے کے لئے ایک سبق لازمی طور سے چھاپا جاتا تھا اوریہ اشتہار بھی کہ اردو زبان کی شیرینی کا ذائقہ چکھنے کے لئے اسے اس کے رسم الخط میں پڑھنا ضروری ہے، ہر شمارے میں ہوتا تھا۔ مگر بد قسمتی سے وہ سبق اور اشتہار میں ہندی و انگریزی سے اردو سکھانے والی ، اردو کونسل کی جن کتابوں کو خریدنے کی سفارش کی جاتی تھی وہ نارنگ صاحب کی لکھی ہوئی تھیں۔آپ چونکہ اندھی نارنگ دشمنی میں مبتلا ہیں اس لئے اس بات کا بھی یقین نہیں کریں گے کہ فاروقی صاحب نے کونسل کا وائس چئیر مین بننے کے بعد ان کتابوں کی فروخت بھی بند کرادی تاکہ نارنگ صاحب کو اس کی رائلٹی نہ مل سکے۔ اس کی جگہ انہوں نے خود اپنی لکھی ہوء اردو سکھانے کی کتابیں کونسل کی طرف سے رائج کرانے کا ڈول ڈال دیا، تاکہ اب رائلٹی انہیں ملا کرے۔ خیر، آج پہلی بار سرِ عام بتا رہا ہوں کہ سخت ڈپریشن کے ان دنوں میں ہی میں نے ‘ادب ساز’ کے اجرا کا پلان بنایا تھا۔ تب میں نے دو عہد کئے تھے۔ ایک یہ کہ ‘اردو درپن’ کے بند ہونے کا شکوہ کسی سے نہیں کروں گا۔ فاروقی صاحب سے بھی نہیں۔اور دوسرا یہ کہ ‘ادب ساز’ کو اس قدر معیاری بنا کر دکھاؤں گا کہ فاروقی صاحب جل بھن کر اور پیچ و تاب کھا کر رہ جائیں۔ یہ میرا انتقام لینے کا اپنا طریقہ تھا اور مجھے اطمینان ہے کہ میں کامیاب رہا۔ میں چاہتا تو میڈیا سے اپنی دیرینہ وابستگی کا استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف اخبارات میں اچھی خاصی تحریک چلا سکتا تھا۔مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ فاروقی صاحب کو پہلی اخلاقی ہزیمت تب ہوئی جب میں نے ان سے ادب ساز کے پہلے شمارے لئے کچھ لکھنے کی گزارش کی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا اس میں نارنگ کا بھی کچھ چھپے گا؟ میں نے بتایا کہ یقیناً چھپے گا۔ تب انہوں نے کہا کہ وہ ایسے کسی رسالے میں نہیں چھپنا چاہتے جس میں نارنگ کا بھی کچھ شائع ہو۔اسکے بعد کا سارا قصہ ‘نیا ورق’میں چھپ چکا ہے۔میرا انتقام تب پورا ہوا جب ‘ادب ساز’کا پہلا شمارہ سامنے آیا اور نارنگ صاحب کے ہاتھوں اس کا جراہوا۔ اور یقین کیجئے نارنگ صاحب کے فرشتوں کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اس شمارے میں کیا چھپا ہے اور رسالہ کس وجہ سے نکالا گیا ہے۔ انہیں رسالے کی اشاعت کا علم بھی اس روز ہوا جب میں نے ان سے اجرا کی درخواست کی۔یہاں تک کہ فاروقی صاحب سے کس بات پرکس لئے بگاڑ ہوا یہ قصہ بھی انہیں ‘نیا ورق’ سے معلوم ہوا۔
7۔اب رہ گئی انسانی کردار کی بات۔ میرا اس بات پر مکمل یقین ہے کہ اچھے سے اچھے آدمی میں کوئی نہ کوئی برائی ضرور ہوتی ہے اور برے سے برے آدمی میں بھی کوئی نہ کوئی اچھی بات ضرور مل جاتی ہے ۔چنانچہ نارنگ صاحب میں بھی کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوگی اور فاروقی صاحب میں بھی کوئی نہ کوئی اچھی بات ضرور مل جائے گی۔
8۔ادب میں سرقے اور جعل سازی کے خلاف آپ کے جہاد کی بات مجھے ایک ستم ظریفی سے زیادہ کچھ نہیں لگتی کیونکہ ابھی توادب ہی تخلیق نہیں ہو رہا ہے۔ ادب تخلیق ہوگا تبھی تو کوئی سرقہ یا جعل ، عمل میں لایا جاسکے۔
9۔ اور ہاں عرض یہ ہے کہ میری پریشانیاں صرف اس لئے ہیں کہ میرے پاس کام بہت ہے کرنے کو۔گزشتہ سال قومی آواز بند ہونے پرمجھ سمیت سبھی ملازمین کو ایک بہترین VRS ملا تھا اور آج کل میں سہارا اردو نیوز چینل کی ملازمت میں ہوں۔
نصرت ظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی بنام نصرت ظہیر۔۲
برادرم نصرت ظہیر صاحب سلام مسنون
پہلے تو خوشی اس بات کی ہوئی کہ اپنی پہلی ای میل کے مقابلہ میں اس بار آپ میرے لیے کچھ نرم ہوئے ہیں۔آپ کی موجودہ وضاحتوں میں کہیں کہیں کچھ ہلکے پھلکے سے سقم دکھائی دے رہے ہیں۔سو آپ کے دئیے ہوئے نمبرز کے مطابق اسی ترتیب سے اپنا جواب پیش کر رہا ہوں۔تاکہ یہ سب کچھ ریکارڈ پر رہے۔
۱۔پہلے نکتہ میں آپ کی موجودہ وضاحت سے کافی حد تک مختلف بات آپ اپنی ایک ای میل(۲فروری ۲۰۰۹ء) میں لکھ چکے ہیں اور یہی اصل حقیقت ہے۔
’’آپ کے گوشہ کی بات یہ ہے کہ جب وہ چھپ رہا تھا تو تب نارنگ صاحب نے اس کا علم ہونے کے باوجود مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ کیوں چھاپ رہے ہو۔جب چھپ چکا تو اس کے بھی تین چار ماہ بعدایک دن انہوں نے پوچھا کہ یہ تو بتاؤحیدر قریشی کہاں سے تمہاراایسے دوست بن گیا کہ ان کا گوشہ چھاپ دیا۔ان سے اتنا گہرا تعلق کب ہوا تمہارا؟میں نے سچ باتیں بتا دیں اور یہ بھی کہ میں انڈیا ،پاکستان سے باہررہنے والے دو ادیبوں پر گوشے چھاپنا چاہتا تھا،ستیہ پال آنند کے مقابل مجھے حیدر قریشی زیادہ سوٹ کرتے ہیں‘‘
یہ صرف آپ کی تحریری بات ہے وگرنہ زبانی اس سے بھی زیادہ محبت کے ساتھ آپ نے کچھ کہا تھا۔
۲۔نارنگ صاحب نے جواب طلبی کی یا نہیں،مذکورہ اقتباس سے کچھ تواندازہ کیا جا سکتا ہے۔سو اوپر والا اقتباس ہی اس کا جواب ہے۔
۳۔جس غلیظ مضمون کی اشاعت میں نارنگ صاحب کے کردار سے آپ یکسر انکار کر رہے ہیں(۲فروری والی ای میل میں ہی آپ یہ لکھ چکے ہیں۔
’’آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ اس مضمون کے پیچھے نارنگ صاحب کا ہاتھ ہے۔میں نے کہا میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔میں نے شاید یہ بھی کہا کہ میں جانتا ہوں۔‘‘
آپ ہی اپنے لکھے پر غور کریں۔میں پھر کہتا ہوں کہ یہ مضمون آپ نے شائع نہ کیا ہوتا تو عکاس کا نارنگ نمبر بھی نہیں چھپتا۔میں تو جدید ادب کے شمارہ بارہ پر نارنگ صاحب کی پے پے در سنسر شپ کے باعث،اپنی داستان ریکارڈ پر لا کر اس موضوع کو ہی چھوڑ چکا تھا۔یہ تو آپ نے مجھے اور میرے دوستوں کو متحرک کر کے یہ نیک کام کرنے پر مجبور کر دیا۔
۴۔میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میرا ایک عرصہ سے فاروقی صاحب سے کسی نوعیت کا رابطہ نہیں رہا۔(صرف آج آپ کی کل والی میل کا جواب انہیں بھیجا ہے)۔فاروقی صاحب کے کسی ایجنڈے سے مجھے کوئی غرض نہیں۔میری طرف سی سیدھی سی بات ہے کسی نے سرقہ کیا ہے تو اسے ادبی کٹہرے میں لانا چاہیے۔یہ صرف نارنگ صاحب کے لیے نہیں ہے، میں گزشتہ دس برسوں سے مغربی دنیا کے ایسے کرداروں کو بساط بھر بے نقاب کر رہا ہوں۔ اور حسبِ توفیق گالیاں کھا رہا ہوں۔اگر نارنگ صاحب نے اپنے سرقوں کی کوئی وضاحت کر دی ہے تو اسے پورے دلائل کے ساتھ سامنے لایا جائے۔ان کی وضاحت کہاں چھپا کر رکھی ہوئی ہے؟
۵۔آپ نے پہلے لکھا تھا کہ میں نے آپ کی تحریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا ہے۔میں نے آپ کی تحریر سامنے رکھ دی کہ اسے اصل سیاق سباق کے ساتھ پیش کیجیے۔لیکن آپ نے ابھی تک یہ کام نہیں کیا۔اس سے کیا تاثر بنتا ہے،یہ قاری پر چھوڑ دیجیے۔مزاحیہ تحریروں میں ہر طرح کی بات کہہ دی جاتی ہے اور پھر بھی ہر طرح کی گنجائش رکھ لی جاتی ہے ۔سو آپ اپنے مفہوم پر مطمئن رہیے،قاری کو اپنی مرضی سے کسی مفہوم تک پہنچنے دیجیے۔قاری کافی ذہین ہو چکے ہیں۔
۶۔فاروقی صاحب نے آپ کے ساتھ یا کسی کے ساتھ کیا دشمنی کی۔۔۔اس میں کہیں ادبی جعلسازی یا سرقے وغیرہ کا معاملہ ہے تومیں آپ سے بڑھ کر آواز اُٹھانے کو تیار ہوں لیکن اگر معاملہ کچھ ذاتی نوعیت کی رنجشوں کا ہے تو آپ جانیں۔فاروقی صاحب جانیں اور نارنگ صاحب جانیں۔البتہ اب مجھے فاروقی صاحب کے نام کے صوتی حوالے سے یونہی طنزومزاح والی بات سوجھی ہے کہ اپنے بے پناہ سرقوں کے باعث نارنگ صاحب کو’’ ساروقی‘‘ کا اعزاز دیا جانا چاہیے۔لیکن اس موازنۂ فاروقی و ساروقی سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔تاہم مزاح نگار ہوتے ہوئے بھی آپ اس مزاح سے رنجیدہ ہوں تو اپنے الفاظ ’’ساروقی‘‘واپس لیتا ہوں۔
۷۔آپ کی اس بات سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ہم سب انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہیں۔کسی میں خوبیوں کاپلڑا بھاری ہو جائے اتنا بھی کافی ہے۔
۸۔اس میں شک نہیں کہ اردو میں بے شمار ٹریش چھپ رہا ہے(بیرون ملک ٹریش اور جعلی لکھنے والوں کی بڑی تعداد کی سرپرستی نارنگ صاحب ہی فرماتے ہیں۔کہیں تو میں ایک سرے سے نام گنوانا شروع کر سکتا ہوں) لیکن اچھا ادب بھی تخلیق ہو رہا ہے۔لیکن اگرآپ کے بقول اچھا ادب تخلیق نہیں ہو رہا تب بھی نارنگ صاحب تو جعل اور سرقہ دونوں کارہائے نمایاں سر انجام دے چکے ہیں۔ یہ تو مزید افسوس کی بات ہے کہ اچھا ادب تخلیق نہیں ہو رہا لیکن نارنگ صاحب پھر بھی سرقہ کیے جا رہے ہیں۔
۹۔اللہ آپ کے رزق میں برکت دے اور آپ کو مزید مالا مال کرے۔ اور درویش کی دعا کیا ہے!
آپ کا بھائی
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میل کا جواب نصرت ظہیر صاحب نے پھر اگلے د ن جرمن ٹائم کے مطابق یکم جولائی کو رات آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر ریلیز کیا اور میں نے دو گھنٹے دو منٹ کے بعد اس کا جواب بھی جاری کر دیا۔
نصرت ظہیر بنام حیدر قریشی۔۳
حیدر صاحب آداب!
ایسا لگتا ہے آپ زندگی بھر دوسروں کے سقم ہی ڈھونڈتے رہیں گے۔
1۔میری وضاحت اورآپ کے نقل کردہ میرے ای میل کے اقتباس میں کیا اختلاف ہے، سوائے اس فرق کے کہ وضاحت میں اختصار ہے اور اقتباس میں اسی بات کی تھوڑی سی تفصیل آگئی ہے؟ البتہ ‘حیدر قریشی کہاں سے تمہارا دوست بن گیا...’ یہ اندازِ تخاطب نارنگ صاحب کا نہیں آپ کا مفروضہ ہے۔ انہوں نے مہذب انداز میں پوچھا تھا اور میں نے ویسے ہی لکھا تھا ، مگر آپ نے اقتباس میں اسے بدل دیا۔صرف اپنے لئے ہمدردی حاسل کرنے کی غرض سے!
2۔ ‘جواب طلبی ’ کا طعن کسنے سے شاید آپ کو کسی قسم کا ذہنی سکون ملتا ہے۔ کستے رہئے...اللہ شفا دے گا۔
3۔ جی ہاں میں نے یہی لکھا تھا اور اس کے بعد یہ بھی کہ ‘مگر یہ بھی سچ ہے کہ انہوں(نارنگ صاحب) نے یہ مضمون مجھے نہیں بھیجا۔’ آگے چل کر یہ بھی لکھا کہ نارنگ صاحب نے مجھ سے کبھی یہ خط یا کسی کا مضمون چھاپنے کے لئے نہیں کہا۔ سچ تو یہ ہے کہ مدیر کی domainمیں دخل انداز ہونا ان کا شیوہ ہی نہیں ہے۔ مگر یہ آپ جواب الجواب میں قصداً گول کر گئے۔یہ جھوٹ ہے، جعل ہے، یا فریب دہی۔ آپ خود ہی طے کیجئے۔ میں اب بھی اسے آپ کا سہو ماننے کو تیّار ہوں۔شمارہ بارہ پر نارنگ صاحب کی سنسر شپ والی بات میری سمجھ سے باہر ہے۔
4۔حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں، میں خود سچّا آدمی ہوں اس لئے دوسروں پر بھی یقین کرتا ہوں۔مجھے آپ کے اندازِ بیان سے اور بعض باتوں پر اصرار سے شبہ ہورہا تھا کہ آپ شاید فاروقی صاحب کے اثر میں ہیں جن کا ون پوائنٹ ایجنڈا آج کل صرف یہ ہے کہ نارنگ صاحب کوdefameکرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں نکلنے دینا چاہئے۔ مجھے آپ کی بات کا یقین ہے۔ تاہم نادانستہ طور پر سہی آپ آج کل ان ہی کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں۔
5۔میرا مضمون بہت بار چھپ چکا ہے۔ ملک کے طول وعرض میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں اردو والے ضرور ہر ہفتے میرے مزاحیہ مضمون پڑھتے ہیں اور وہ بھی کافی ذہین ہیں۔سیاق و سباق میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ادبی معموں کی صنعت پر مضمون لکھا گیا تھا جسے نارنگ صاحب نے بھی پسند کیا تھا۔اب سیاق و سباق اس کا آپ نے بدلا ہے اسے نارنگ مخالف نمبر میں چھاپ کر تاکہ لوگ اسے نارنگ مخالف تحریر سمجھیں۔
6۔ فاروقی صاحب نے میرے ساتھ کوئی نجی قسم کی ذاتی دشمنی نہیں کی۔لیکن وہ دھوکے باز ہیں۔ پہلیانہوں نے سی آئی اے کا ایجنڈا پورا کرتے ہوئے ترقی پسندی کے خلاف جدیدیت کا جھنڈا لہرا کر اردو ادیبوں کو دھوکا دیا اور گمراہ کیا۔ اردو درپن کے معاملے میں رسم الخط بدلنے کے جھوٹ پر مبنی تحریک چلا کر لسانی تعصب کو ہوا دی ، گیان چند جین کی کتاب پر یک طرفہ تنقید لکھ کراردو سماج کو مذہب کی بنیاد پرتقسیم کرنے کا مذموم چکّر چلایا جس کی پول کھل چکی ہے کہ اس میں بھی بنیادی غرض نارنگ صاحب کو رسوا کرنے کی تھی۔ اْس گوپی چند نارنگ کو یہ طالبانی نقاد جن سنگھی فرقہ پرست گردانتا ہے جس نے ولی دکنی کے مزار کو مسمار کرنے کے خلاف آواز اٹھائی اور این ڈی اے کے ہی دور میں ساہتیہ اکادمی کے ایک سیمینار میں اس مزار کو بحال کرکے وہاں ولی دکنی کی یادگار قائم کرنے کی قرارداد منظور کرائی تھی۔ اس وقت گیان چند جین کی کتاب کے خلاف اسلامی جھنڈا لہراے والا اردو ادب کا یہ جیالا بقراط اور سرسوتی سمّان فاروقی کیا کر رہا تھا؟ وہ جن سنگھی وزیرتعلیم مرلی منوہر جوشی کو مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد سب سے بڑا دانشور قرار دے رہا تھا تاکہ اس کی بیوی کے اسکول کو اچھی سی مالی امداد مل جائے۔مگر آپ اس کذب ، اس فریب اور اس کفر کے خلاف کہاں آواز اٹھائیں گے۔ ہاں فاروقی صاحب کے یہاں کوئی ایسا سہو یا کوتاہی آپ کو مل جائے جسے آپ اپنی دانست میں ادبی سرقہ کہہ سکیں تو آپ زمین آسمان ایک کردیں گے۔ فاروقی صاحب کو مجھ سے کوئی ذاتی پرخاش ہوگی یہ میں نہیں جانتا۔ البتہ میں ان سے ذاتی پرخاش اس لئے رکھتا ہوں کہ وہ ، مذہبی ، لسانی اور تہذیبی رواداری اور pluralismاشتراکیت و مساوات کی قدروں کے دشمن ہیں جنہیں میں اپنا آدرش سمجھتا ہوں۔ یہاں میں کسی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ سی پی آئی اور سی پی ایم جیسے کمیونسٹوں سے بھی نہیں۔مجھے آپ سے مدد نہیں چاہئے۔ میری ترجیہات میرے ساتھ ہیں آپ کی آپ کے ساتھ ۔دونوں میں خاصا فرق ہے۔
باقی باتیں وضاحت طلب نہیں ہیں۔ آخر میں میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے شعور و لاشعور کو اس آشوبِ چشم سے بچائیے جو آپ کو لوگوں کی شخصیتوں اور کرداروں کے درست رنگ پہچاننے سے روک رہا ہے۔ اپنے دل میں سوز و گداز پیدا کیجئے۔صرف اپنی ذات پر ساری توجہ کو مرکوز نہ رکھئے۔ ا س گلشنِ ہستی میں بہت کچھ اچھا بھلا موجود ہے۔ اس کا لطف اٹھائیے۔یہ نصیحتیں اس لئے بھی کررہا ہوں کہ عمر میں آپ سے ایک ڈیڑھ برس بڑا ہوں۔
نصرت ظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی بنام نصرت ظہیر۔۳
برادرم نصرت ظہیر صاحب!
سلام مسنون
آپ کی ای میل کے صرف ایک نکتے کے سلسلہ میں وضاحت کرتا ہوں کہ نہ یہ مفروضہ ہے،نہ میں نے اپنی طرف سے کچھ لکھا ہے۔نارنگ صاحب کا انداز تخاطب ایسا ہے یا نہیں،آپ بہتر جانتے ہیں لیکن آپ نے مجھے ان سے متعلق یہ بات اسی طرح لکھی تھی۔آپ کی ۲فروری والی ای میل جو رومن اردو میں تھی اس کے من و عن الفاظ یہ ہیں:
Aap ke goshe ki baat ye he ke jab wo chhap raha tha tab Narang sb ne iska ilm honay ke bawajood mujh se nahi poochha ke kyun chhaap rahe ho. Jab chhap chuka to us ke bhi 3- 4maah baad ek din unhon ne poochha ke ye to batao Haider Qureshi kahaan se tumhaare ese dost ban gae ke un ka gosha chhaap diya. Un se itna gehra talluq kab hua tumhara. Maen ne sach baaten bata deen. Aur ye jawaaz bhi ke maen India Pakistan se baahar rehne waale do adeebon par goshe chhaapna chahta tha. S P Anand Sb ke muqabil mujhe HaiderQureshi ziyada suit karte they.
آپ زبانی کہی باتوں سے تو بات کو گول مول کر سکتے ہیں لیکن اپنے لکھے سے کیسے مکر سکتے ہیں؟اسی بات کو میں نے اردو اسکرپٹ میں یوں لکھا ہے:
’’آپ کے گوشہ کی بات یہ ہے کہ جب وہ چھپ رہا تھا تو تب نارنگ صاحب نے اس کا علم ہونے کے باوجود مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ کیوں چھاپ رہے ہو۔جب چھپ چکا تو اس کے بھی تین چار ماہ بعدایک دن انہوں نے پوچھا کہ یہ تو بتاؤحیدر قریشی کہاں سے تمہاراایسے دوست بن گیا کہ ان کا گوشہ چھاپ دیا۔ان سے اتنا گہرا تعلق کب ہوا تمہارا؟میں نے سچ باتیں بتا دیں اور یہ بھی کہ میں انڈیا ،پاکستان سے باہررہنے والے دو ادیبوں پر گوشے چھاپنا چاہتا تھا،ستیہ پال آنند کے مقابل مجھے حیدر قریشی زیادہ سوٹ کرتے ہیں‘‘
میری طرف سے کوئی مفروضہ پیش نہیں کیا گیا۔آپ سے پوری طرح جواب طلبی ہوئی ،اب اسے کہاں تک چھپائیں گے اور کیسے چھپائیں گے؟
برادرم!
آپ کی طرف سے ایک اہم ،اصل اور بنیادی بات تھی کہ ما بعد جدیدیت کے حوالے سے آپ کے مزاحیہ اقتباس کو سیاق و سباق سے الگ کرکے پیش کیا گیا۔ میں نے آپ کا اقتباس پیش کر دیا کہ اسے اس کے اصل سیاق سباق کے ساتھ سامنے لائیے۔آپ اس میں ناکام رہے ہیں۔وہ اقتباس پھر پیش کرتا ہوں۔
’’اردو زبان و ادب کی جتنی خدمت ادبی معموں نے کی ہے اتنی ہمارے خیال سے کسی نے بھی نہیں کی ہو گی۔یہاں معموں سے ہماری مراد وہ چلتی پھرتی محترم شخصیتیں ہر گز نہیں ہیں جن کے نام کے ساتھ پروفیسریا ڈاکٹر کا لاحقہ جڑا رہتا ہے اور جنہوں نے جدیدیت،مابعد جدیدیت اور ساختیات و پسِ ساختیات کے چکرمیں ڈال کرخود اردو ادب کو ایک معمہ بنا ڈالا ہے۔۔۔۔اُس زمانے میں ادبی معمے اردو والوں کو اور بھی کئی خرافات سے دور رکھتے تھے۔نہ انہیں اس کی فکر رہتی تھی کہ کس اردو اکادمی نے اس مرتبہ کس غیر مستحق ادیب کو ایوارڈ سے نوازا ہے اور نہ وہ اس بحث میں پڑتے تھے کہ ما بعدالجدیدیت اور ساختیات و پسِ ساختیات کی اوّلین دریافت کا سہرہ کس کے سر باندھا جائے۔نیز یہ کہ جدیدیت کے بعد ما بعد جدیدیت آئی ہے تو کیا اس اصول کے تحت مابعد جدیدیت کے بعد مامابعد جدیدیت آئے گی؟اور کیا سن ۲۱۵۵ء تک آتے آتے اردو ادب میں ماماماما ما ما مابعد جدیدیت پڑھی جا رہی ہو گی؟ ‘‘
(نصرت ظہیر کے طنزیہ اردو کے ادبی معمے سے اقتباس)
اس کا سیاق و سباق سے الگ ہونا ثابت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے ورنہ حقیقت سب پر ظاہر ہے،حتیٰ کہ نارنگ صاحب پر بھی ظاہر ہے۔
پہلے آپ نے غیر ذمہ دار مدیر کے طور پر ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ عکاس کا نارنگ نمبر چھاپنا واجب کر دیا۔اب آپ کی مسلسل کوشش ہے کہ نارنگ صاحب کے سرقوں سے توجہ ہٹا کر دوسری غیر متعلق باتوں میں سرقے کی بات گول کر دی جائے۔لیکن آپ کی اس کوشش سے بھی نارنگ صاحب ہی کا مزید تماشہ بن رہا ہے۔میں نارنگ صاحب کے سرقوں کے ڈھیروں ڈھیراقتباسات کو چھوڑ کر صرف تین بڑے سرقوں پر آپ کو روک چکا ہوں کہ ان کا جواب دلائیے۔
۱۔نارنگ صاحب کی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۳سے لے کر ۳۳۴تک صرف بیس صفحات بھی ایسے نہیں ہیں جو انگریزی کتابوں کا لفظ بلفظ ترجمہ نہ ہوں۔۲۔رامن سیلڈن کی کتاب Contemporary Literary Theoryسے جو سرقہ کیا گیا ہے وہ ساٹھ صفحات سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔۳۔ ٹیرنس ہاکس کی کتاب Structuralism and Semiotics پیراگرافس کے معمولی ادل بدل کے ساتھ پوری کی پوری اپنی کتاب میں شامل کر لی ہے۔
دو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے لیکن نارنگ صاحب ابھی تک اپنے سرقوں کے بارے میں کھل کر کچھ بھی نہیں کہہ سکے۔آپ اس الزام کا علمی جواب لائیے۔
آپ کے ساتھ موجودہ خط و کتابت اب ادبی ریکارڈ کا حصہ بن گئی ہے اور افسوس کہ آپ نہ تو اپنے اقتباس والا الزام ثابت کر سکے اور نہ نارنگ صاحب کے کوہ ہمالیہ جیسے سرقوں سے بریت کے لیے کوئی علمی دلیل لا سکے۔بہت سارے حقائق کو ادبی دنیا بہتر طور پر سمجھ رہی ہے۔اب پہلے یہ دو معاملات طے کر لیں پھر کسی اور طرف چلیں گے۔
آپ کا بھائی حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا جواب بھی حسبِ سابق نصرت ظہیر صاحب نے اگلے روز ۲ جولائی ۲۰۰۹ء کو رات نو بج کر انتیس منٹ پر جاری کیا اور چند اٹ پٹی باتوں کے ساتھ مزید بحث سے انکار کر دیا۔یہ میل انہوں نے اوپن طور پر بھی جاری کی اور مجھے ذاتی طور پر الگ سے بھی بھیجی۔اس کے جواب میں انہیں میں نے ذاتی طور پر رات کے۱۰بج کر آٹھ منٹ پر میل بھیجی۔اور ۱۰بج کر ۲۹منٹ پر اوپن میل بھی ریلیز کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت ظہیر بنام حیدر قریشی۔۴
حیدر صاحب
آداب
پہلے آپ کی باتیں پڑھ کر کسی قدر غصہ آیا تھا۔ پھر ہنسی آئی۔ اور اب اپنی عقل پر اورآپ کے سوچنے کے ڈھنگ پر روناآرہا ہے۔اپنی عقل پر یوں کہ مجھے پہلے ہی سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اتنے عرصے سے نارنگ صاحب سے پرخاش رکھنے کے بعد آپ میری بات قطعی نہیں سمجھیں گے۔نارنگ صاحب کو کسی بھی طرح نیچا دکھانا اب آپ کاذہنی مرض اور obsessionبن چکا ہے چنانچہ اب آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ آپ کی فہم پر ترس آنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس ای میل میں اپنی اور میری ای میل کے اقتباس نقل کرکے بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ آپ کی عبارت ‘حیدر قریشی کہاں سے تمہارا ایسا دوست بن گیا...’ اورمیرے تحریر کردہ Haider Qureshi kahaan se tumhaare ese dost ban gaeمیں جملے کی ساخت اور تخاطب کی شائستگی میں جوفرق موجودہے اس کے لئے کون ذمہ دار ہے ؟ اس پر پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ کہ یہ جواب طلبی ہے !چلئے مان لیا۔ جی ہاں انہوں نے جواب طلبی کی تھی۔ کان بھی اینٹھے تھے۔ اب آپ خوش ہیں؟
اس کے بعد پھر میرے مضمون پر تکرار۔ بھائی صاحب اب کیا چیخ چلّا کر کہوں کہ اس مضمون میں نارنگ صاحب کو نہیں ادبی نظریہ سازی اور تھیوری بازی کو طنزومزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا جن سے ادب بجائے خود ایک معمہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ میں بات ادبی معموں کی کر رہا تھا اورآپ نے اسے نارنگ صاحب پر چپکا دیا۔یہ ہے آپ کی بددیانتی۔ اپنا سیاق و سباق میں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ اب آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
آخر میں یہ کہ جناب اب بہت ہوا۔اب یہ کشتی اور پہلوانی بند کیجئے۔ مجھے ادب ساز کے موجودہ شمارے میں ہونے والی تاخیر کی فکر کھائے جا رہی ہے اسے پورا کر لینے دیجئے۔ اور خدا کے لئے خود بھی کسی ڈھنگ کے کام میں لگئیے۔ آئندہ آپ مجھے اس سلسلے میں کوئی خط نہ لکھیں۔لکھیں گے تو میں کوئی جواب نہیں دوں گا۔ مجھے آپ کے ایجنڈے سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں مجھے معاف فرمائیں ، اور میرے بارے میں جو آپ کے جی میں آئے وہ سوچ کر اپنا دل بہلاتے رہیں۔ خدا حافظ۔
یار زندہ صحبت باقی۔
نصرت ظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی بنام نصرت ظہیر۔۴
ذاتی میل
بھائی صاحب!
یہی بات آپ نے شروع میں پبلک میں جا کر کرنے کی بجائے ایک بار مجھ سے ڈائریکٹ کر لی ہوتی تو اتنا تماشہ کیوں لگتا۔میں نے اپنے خطوط میں حوالہ جات دئیے ہیں،کمینٹس کم کیے ہیں۔اس لیے کہ مجھے آپ کی ذات کا ابھی بھی لحاظ ہے،وگرنہ جو مراسلت ہو چکی ہے،اس پر ہی لوگ کسی فیصلہ پر آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔چلیں اب ایک فیور دیں۔۔مجھے اپنے چاروں خطوط ان پیج میں فراہم کر دیں۔شکر گزار ہوں گا۔جنگ لندن میں آج ہی میرا تبصرہ چھپا ہے اور آپ اس کے بعض حصوں سے پہلے ہی واقف ہیں کہ آپ سے مراسلت میں بیان ہو چکے ہیں۔
ایک بات ذہن میں صاف کر لیں۔سرقے والے اِشّو میں فاروقی صاحب کا نہ کوئی کردار ہے اور نہ اس اِشّو کا معرکۂ نارنگ و فاروقی سے کوئی تعلق ہے۔
ان پیج فائلز کا انتظار کروں؟
آپ کا پرانا بھائی
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرنیٹ کے ذریعے یہ اوپن میل جاری کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصرت ظہیر صاحب نے بحث ختم کر دی ہے۔میں نے انہیں ذاتی طور پر ای میل بھیج دی ہے سو اب نصرت ظہیر صاحب والی بحث ختم ہوئی۔جو کچھ آن ریکارڈ ہے وہ اب پبلک پراپرٹی ہے۔آج روزنامہ جنگ لندن کے ادبی صفحہ پر میرا تبصرہ شائع ہوا ہے۔اخبار کا تراشہ منسلک ہے اور یہ بحث کے اختتامیہ کے طور پر ہے۔حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جنگ لندن میں چھپنے والایہ تبصرہ اسی کتاب کے صفحہ نمبر۲۸پر موجود ہے)