(یہاں اختتامیہ کا صرف نارنگ صاحب سے متعلق حصہ دیا جا رہاہے۔مکمل اختتامیہ
کے مطالعہ کے لیے کتاب ہمارا ادبی منظر نامہ کا اختتامی حصہ پڑھنا ہو گا۔حیدر قریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنقید ،تبصروں اور تاثرات پر مبنی اپنے مضامین کے چھ مجموعے ایک جلد میں پیش کرتے ہوئے مجھے دلی خوشی ہو رہی ہے۔ہماری دنیا میں بہت کچھ مثبت و منفی موجود ہے۔میرے حصے میں جتنا منظر آیا ہے،وہاں مجھے جو کچھ ،جتنا اور جیسا دکھائی دیا ہے میں نے اسے مناسب طور پر بیان کر دیا ہے۔
عام ادبی کتابوں پر لکھے گئے مضامین ،اور بعض ادیبوں کے مجموعی مطالعہ کے بعدلکھے گئے مضامین کی ایک بڑی تعداد ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘میں شامل ہے۔کتابوں پر کیے گئے اپنے مختصر تبصروں کوبھی میں نے یہاں شامل رکھا ہے۔عام طور پر ہمارے تبصرہ نگار یا فلیپ نگار حضرات اپنی ایسی تحریروں کو وقتی نوعیت کی قرار دے کر انہیں کتابی صورت میں شائع کرنے سے گریز کرجاتے ہیں۔بعضوں نے تو برملا طور پر کہہ رکھا ہے کہ یہ تو ہم کسی مصنف کی دل جوئی کے لیے لکھ دیتے ہیں۔گویا اپنے لکھے سے مکر جانے کی مکمل گنجائش رکھی ہوئی ہے۔ایسے ادیبوں کا اس معاملہ میں اپنا طریقِ کار ہے۔وہ اپنے موقف میں حق بجانب ہوں گے۔میں نے چونکہ ہر تبصرہ پوری کتاب کو پڑھ کر کیا ہے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا ہے،اس لیے میرے نزدیک میرے یہ مختصر تبصرے اتنے ہی اہم یا غیر اہم ہیں جتنے میرے دوسرے مضامین ہو سکتے ہیں۔
میرے مضامین کا ایک حصہ ادبی معرکہ آرائیوں سے متعلق ہے۔اس سلسلہ میں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔اصل موضوع پر اپنا موقف واضح کرنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے اردو ماہیا کی بحث کے زمانہ میں جانا چاہوں گا۔۱۹۹۹ء تک ماہیا کی بحث میں میرے مخالفین نے علمی بحث کو چھوڑ کر ذاتی نوعیت کے حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔تب مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی مخالفین کے آس پاس کی سطح پر جا کر مخالفین کو جواب دینا پڑا ۔ وہ سب کچھ اخبارات و جرائد میں شائع ہوتا رہاتھا۔چنانچہ ماہیا پر اپنی دوسری کتاب’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘(مطبوعہ ۱۹۹۹ء)کے آخری صفحہ پرمیں نے اپنی نئی کتاب کا اشتہار شائع کیا’’ماہیا۔علمی بحث سے غوغائے رقیباں تک ‘ ‘ ۔ اس میں مخالفین کا ساراغیر علمی اور غیر ادبی کردار یک جا کرکے ان سب کا جواب بھی شامل کر لیا تھا۔یہ تقریباََ۲۵۰صفحات کی کتاب بن گئی تھی۔
اپنی طرف سے پوری تیاری کر لینے کے باوجود میں ماہیا کی بحث میں ایک حد سے زیادہ آگے جانے میں متامل تھا۔اس کا ثبوت آن ریکارڈ موجود ہے۔اختر رضا سلیمی نے مجھ سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا جو ماہیا کی ساری بحث سے متعلق تھا۔یہ انٹرویو سہ ماہی’’ماہیا روپ‘‘کراچی۔شمارہ نمبر ۱۔جنوری تا مارچ ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا تھا۔اس انٹرویو میں اختر رضا سلیمی کے ایک سوال اور اس کے جواب کا ایک حصہ یہاں درج کر رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سوال: ماہیے پر آپ کی اگلی کتاب کونسی آرہی ہے؟
جواب:میں نے ’’ماہیا۔۔۔علمی بحث سے غوغائے رقیباں تک‘‘کا بیشتر کام مکمل کر لیا ہے۔لیکن اسے چھپوانے میں مجھے ابھی تھوڑا تامل ہے۔مجھے ہلکا سا احساس ہے کہ شاید میری مخالفت میں ظلم کی حد تک چلے جانے والے دوستوں کو کسی مرحلے پر اپنی زیادتی کا احساس ہو جائے۔اس کے تھوڑے سے آثار ایک دو طرف سے دکھائی بھی دئیے ہیں۔سو اگر متعلقہ دوست سکوت اختیار کرتے ہیں تو میں اس کتاب کی اشاعت ہی روک دوں گا تاکہ جو ہو چکا اس پر مٹی ڈال دی جائے۔لیکن اگر یہ صرف ایک دھوکا ہوا تو پھر مجھے مجبوراََ وہ سارا ریکارڈ کتابی صورت میں محفوظ کرنا ہوگا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ مخالفین نے ادب اور تہذیب کی حد سے باہر جا کر مخالفت کرنے کا سلسلہ بند کردیا۔چنانچہ میں نے بھی مذکورہ بالا کتاب کا سارا مواد موجود ہونے کے باوجوداس کی اشاعت روک دی۔ بے جا مخالفت کا وہ سارا مواداور اس کے موقعہ کے مطابق جواب سب اخبارات کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔اس کے باوجودجب کرم فرماوٗں نے اختلاف رائے کو ادبی زبان میں ہی بیان کرنے کا طے کر لیا تو اپنی پہلی ترجیح کے مطابق میں نے بھی ذاتیات سے بچ کر رہنابہتر سمجھا۔چنانچہ کتاب’’ماہیا۔علمی بحث سے غوغائے رقیباں تک‘‘کی اشاعت کو پہلے ملتوی اور پھر منسوخ کر دیا گیا۔
ماہیے کی بحث سے ہٹ کر مجھے ادب میں سرقہ اورجعلسازی کے موضوع میں خاص دلچسپی رہی ہے۔اس حوالے سے مختلف خواتین و حضرات شاعروں،متشاعروں،جعلی ادیبوں، اور انہیں لکھ کر دینے والے ان کے استادوں کے بارے میں مجھے تھوڑا بہت لکھنے کا موقعہ ملتا رہا ہے۔مالی رشوت کی حد تک بات کرنا تو ٹھیک ہے لیکن خواتین کے معاملہ میں جمالی رشوت کے کئی مستند واقعات زبان زد عام ہونے کے باوجودمیں نے ادبی دنیا کے اس’’ لذیذ‘ ‘ موضوع سے بڑی حد تک گریز کرنا ہی مناسب سمجھا۔تاہم سرقہ اور جعلسازی کی نشان دہی کرنے کا عمل میں نے جاری رکھا اور اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی ۔ انتہائی معمولی اور بے نام قسم کے متشاعروں نے بھی اپنی نشان دہی ہونے پر شرمندہ ہونے کی بجائے میرے خلاف دشنام طرازی کی غلیظ مہم چلانا شروع کر دی۔میں نے اس مہم کا سامنا بھی مناسب طور سے کیا۔ چھوٹے موٹے ادبی چور اچکوں سے نمٹنے کے ساتھ مجھے اپنا معمول کا ادبی کام بھی کرتے رہنے کی توفیق ملتی رہی۔
اپنے ادبی معمولات سے گزرتے ہوئے مجھے یکے بعد دیگرے تین بڑے معرکوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔
پہلا معرکہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی کتاب کے ترجمہ بلا حوالہ سے شروع ہوا اور انتہائی ماردھاڑ سے گزرتا ہوا ایک سیز فائر پر منتج ہوا۔لیکن پھر یہ سیز فائر قائم رہنے کے باوجود ایک خاموش کاری گری کا مظہر ثابت ہوا۔ اس کی بیشتر روداد میرے مضمون ’’مار دھاڑ سے ادبی حقیقتِ حال تک ‘‘میں بیان کی جا چکی ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب عمران بھنڈر کی کتاب کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دے رہے تھے لیکن میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کے معاملہ میں اس درجہ حساس تھے کہ ایک معتبر اور معزز دوست ناصر عباس نیر کے توسط سے انہوں نے تقاضا کیا کہ اس کتاب کو ویب سائٹس سے ہٹا دیا جائے۔ مجھے ان کے اس تقاضا کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی تھی۔معرکہ آرائی کے دوران اپنے دلائل اور اپنے موقف کی صداقت کا مجھے جتنا یقین تھا،نارنگ صاحب کے تقاضا نے بالواسطہ طور پر اس کا اعتراف کرلیا تھا۔اپنے دلائل اور اپنے موقف کی قوت کا احساس ہونے کے باوجود میں نے سیز فائر کا احترام کرتے ہوئے خود کتاب کو انٹرنیٹ کی دنیاسے ہٹانے سے معذرت کرتے ہوئے انہیں ایسا کر سکنے کا مناسب رستہ بتا دیا۔میری کتاب انڈیا اور پاکستان دونوں طرف سے شائع ہو چکی تھی اور پوری طرح ادبی تاریخ کا حصہ بن چکی تھی۔سو کسی ویب سائٹ سے ہٹا دئیے جانے کے باوجود معرکہ آرائیوں کی تاریخ میں اس کی اہمیت پوری طرح قائم تھی اور قائم رہے گی۔چنانچہ اس کے بعد میں نے بھنڈر اور اس کے بعض دوستوں کے ساتھ ایک اور معرکہ سر کیا۔افسوس ہے کہ بھنڈر کا ساتھ دینے والوں میں زیادہ تر شمس الرحمن فاروقی صاحب کے کارندے شامل تھے۔تاہم سیز فائر کے وعدہ کے باوجود اور کسی حد تک اس پر قائم رہنے کے باوجودنارنگ صاحب کے بعض کارندوں کا انوکھا طرزِ عمل سامنے آیا۔پھر ستیہ پال آنند نے مجھے ایک ایسے پنگے میں گھسیٹ لیا،جس سے میرا کوئی خاص واسطہ نہ تھا۔میں نے ان سے براہِ راست غلام محمد قاصرکے دو اشعار اپنے نام سے سنا دینے والے معاملہ کے بارے میں استفسار کیاتھا۔انہوں نے ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء کی ای میل میں مجھے ایک وضاحت لکھ بھیجی۔میں نے اس کا عتبار کر لیا اور خاموشی اختیار کر لی۔میری طرف سے پھر اس معاملہ میں کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔لیکن ۱۵نومبر ۲۰۱۱ء کی اپنی ایک وضاحت میں ستیہ پال آنند نے مجھے بھی اس معاملہ میں گھسیٹ لیا۔اس کی تفصیل میرے مضمون’’اردو غزل کا انتقام۔ستیہ پال آنند کا انجام‘‘میں دیکھی جا سکتی ہے۔یہ عین وہ موقعہ تھا جب میرا ،جعلی فلسفی عمران بھنڈر اور شمس الرحمن فاروقی صاحب کے کارندوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔گویا بظاہر سیز فائر کرنے کے باوجود نارنگ صاحب درپردہ مجھے دوسرے معاملات میں الجھانے کی تگ و دو کر رہے تھے،کرا رہے تھے۔ اور ایک انتہائی نازک موقعہ پر مجھ پر دوسری طرف سے وار کیا گیا۔
اپنے مضمون ’’مار دھاڑ سے ادبی حقیقتِ حال تک ‘‘ میں بیان کردہ اس نوعیت کی ساری کاروائیوں کو گہری نظر سے دیکھنے کے بعدمیں نے جہاں ستیہ پال آنند کے بارے میں اپنے مضامین کا مختصر سا مجموعہ الگ شائع کر دیا وہیں اس مجموعہ کو ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ میں بھی شامل کر لیا۔اسی طرح یہ بھی طے کیا کہ نارنگ صاحب کے بارے میں اپنی کتاب ’’گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کو بھی ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘میں شامل کر لوں۔سیز فائر کے احترام کو ملحوظ رکھا جاتا تو میں اس کتاب کی الگ شناخت موجود رہنے کے باوجود اسے اس جلد میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔لیکن شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ جب میں نے ادبی زندگی کا ایک بڑا حصہ ادبی معرکوں میں بھی صرف کیا ہے تو پھر ادبی زندگی کے اس اہم معرکے کوبھی اس بڑی جلد میں شامل کرلینا چاہیے۔ایسا ہو رہا ہے تو اس کی اخلاقی ذمہ داری ڈاکٹر گوپی چند نارنگ پر ہی عائد ہوتی ہے۔انسان بعض اوقات اپنی سماجی قوت اور اختیار کی طاقت کے بے جا استعمال سے خود اپنا ہی نقصان کر بیٹھتا ہے۔علمی وادبی دلائل کی قوت کے بالمقابل سماجی سطح پر حاصل اختیار کی قوت کے سامنے بے شک کہیں کہیں مجبوریاں بھی حائل ہوجاتی ہیں لیکن میں نارنگ صاحب کے سماجی دائرۂ اختیار سے نہ صرف دور ہوں بلکہ ایک حد تک اس سے محفوظ بھی ہوں۔انہوں نے اندازے کی غلطی کرکے مجھے موقعہ دیا کہ میں اپنے مضامین کے مجموعوں کے اس مجموعہ میں ان کے بارے میں لکھی ہوئی اپنی کتاب کو شامل رکھوں۔یہ موقعہ عطا کرنے پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
نارنگ صاحب نے جو تراجم بلا حوالہ کیے ہیں،اس الزام پر نظر ثانی ضرور ہونا چاہیے۔پوری ادبی تحقیق کے بعد پھر جو حقائق ہوں انہیں ایمانداری کے ساتھ ادبی دنیا کے سامنے پیش کردیا جائے۔اسی طرح ان کے حصے میں جتنا ترجمہ بلا حوالہ کا الزام ثابت ہو ،اسے اردو ادب میں پہلے سے موجود اس بیماری کے تناظر میں دیکھا جائے، اورجتنا دوسروں کو اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے،نارنگ صاحب پر بھی اتنا بوجھ ڈالا جائے۔
میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کی اس جلد میں شمولیت اور اس کے بعد کے سارے حالات و واقعات سے ہمارے ادب کی پس پردہ سرگرمیوں اور کاروائیوں کا ایک پہلو بھی کھل کر سامنے آیا ہے۔ ہم سب لوگ، بلا امتیازاردو کی ادبی دنیا کے سب لوگ ،ادبی اصولوں کے نام پر سامنے کچھ اور کہتے رہتے ہیں اور درپردہ کچھ اور کرتے رہتے ہیں۔ایسے ماحول میں جب ایک طرف ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب جیسی طاقتور شخصیت ہوں اور دوسری طرف شمس الرحمن فاروقی صاحب کے کارندے بلا جواز مجھ پر حملہ آور ہو رہے ہوں۔کیا کوئی عام ادیب ایسی صورتِ حال میں دونوں طرف مناسب طور پر نبرد آزما ہو سکتا ہے؟میں نے حق پرستی کے ایسے ایسے دعوے دار دیکھے ہیں جنہوں نے شروع میں تھوڑا سچ لکھنا شروع کیا لیکن پھر سودے بازی کرکے خاموش ہو گئے اور دوسرے موضوعات میں مصروف ہو گئے۔کچھ لوگوں نے ایک انعام یا ایک دعوت نامے کی قیمت پراپنی ساری حق گوئی ڈھیر کر دی۔مجھے خوشی ہے کہ میں نے مناسب حکمت عملی کے ساتھ ہندوستان میں اردو کے دونوں طاقتوربڑوں کے معاملہ میں اپنے بنیادی موقف کو قائم رکھا۔میرے ساتھ جو سیاست ہوئی،اس کے باوجود اپنے بنیادی ادبی موقف پر قائم رہتے ہوئے میں نے اس سیاست کا کھل کر سامنا کیااور سُرخرو رہا۔ جہاں بعض حق پرستی کے دعوے دار ایک تقریب کے دعوت نامہ پر ڈھیر ہو چکے تھے،وہیں مجھے خدا نے ان دونوں بڑوں کی کسی عنایت کے بغیر ہندوستان کے یادگار سفر کی عزت بخشی۔اور خود گوپی چند نارنگ صاحب جو عام طور پر کسی کو درخورِاعتنا نہیں سمجھتے،اس بات پر شاکی ہوئے کہ میں دہلی میں آیا،ہر کسی سے ملتا رہا لیکن نارنگ صاحب کو فون تک نہیں کیا۔ انہوں نے یہ شکوہ باقاعدہ طور پر مجھ تک پہنچایا۔مجھے ان کے اس شکوہ سے دلی خوشی ہوئی ہے۔ انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بے شک اپنی طاقت اور وسائل کے بل پر بہت ساروں کو جھکایاجاسکتا ہے لیکن ہر کسی کو نہیں جھکایا جا سکتا ۔ کہیں کوئی ایک آدھ سرپھرا ایسا بھی نکل آتا ہے کہ جس کی فقیری کے سامنے آپ کی ساری شاہانہ طاقت اور شاہانہ اختیار بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔
نارنگ صاحب والے معرکہ کے دوران ایک دلچسپ منظر یوں بھی سامنے آیا کہ بعض سینئیرلکھنے والوں نے جب دیکھا کہ اس معرکہ میں یہ بندہ بڑی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ بھی اس کام میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے آگئے۔میں نے ان کے ایسے اقدام کو اپنی حوصلہ افزائی شمار کیا ۔لیکن تب حیرانی ہوئی جب وہ خود ہی اس معرکہ کے ہیرو بننے لگے۔اس سلسلہ میں زبیر رضوی کا ہلکا سا حوالہ دوں گا لیکن خاص طورپر سی ایم نعیم صاحب کا نام ضرور لوں گا۔جب تک ان کی واہ واہ ہو رہی تھی وہ آگے بڑھتے رہے لیکن جیسے ہی مجھے پڑنے والی گالیوں میں سے ایک معمولی سی بوچھارکا رُخ سی ایم نعیم صاحب کی طرف گیا،ان کی سٹی گم ہو گئی۔جب ہم کسی پر کوئی الزام لگا کر اس سے جواب کا مطالبہ کرتے ہیں تو اخلاقی طور ہم بھی پابند ہیں کہ جب ہم پر کوئی الزام لگے توہم بھی اس الزام کا جواب دیں۔سی ایم نعیم صاحب کے بارے میں نارنگ صاحب کے حلقے کی طرف سے جن سنگین الزامات کے ساتھ وار کیا گیا تھا،وہ ان کا سامنا کرکے کوئی جواب دینے کی بجائے میدان سے ہی بھاگ گئے۔اورتب سے اب تک اس معاملہ میں گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ایک اور منظر یہ بھی ریکارڈ پر آچکا ہے کہ جب میں نے عمران بھنڈر کے بارے میں مضامین لکھنے شروع کیے تومخالفین نے بجائے بھنڈر کے بارے میں میرے پیش کردہ دلائل اور شواہد کی روشنی میں کوئی معقول بات کرنے کے، مجھ پر نارنگ صاحب کے ساتھ مل جانے کا الزام لگا کر شور مچانا شروع کر دیا۔میں نے ان سارے الزامات کو بھی مدلل طور پر رد کرکے اپنا موقف مزید واضح کیا۔تاہم اس کے نتیجہ میں یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ عمران بھنڈر جو تب تک ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے تراجم بلا حوالہ کے کارِ خیر میں مصروف تھا،یکایک اس کام کو چھوڑ کر ڈاکٹر وزیر آغا کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہو گیا۔اور تب سے اب تک صحافتی سطح کا کام تو کر رہا ہے لیکن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے بارے میں جو کام کر رہا تھا،اسے مزید کرنے سے رُک گیا ہے۔کیا یہ بجائے خود اندر کی کسی ساز بازکا نتیجہ ہے؟اس پر غور کرنا ضروری ہے۔اگر ستیہ پال آنندایک طرف عمران بھنڈر کے ساتھ راہ و رسم رکھتے ہوں اور دوسری طرف نارنگ صاحب کا بھی دَم بھرتے ہوں توکہیں انہوں نے کوئی درمیانی راستہ تو نہیں نکال لیا؟۔اسی طرح معید رشیدی بھی بھنڈر سے اچھی سلام دعا رکھتے تھے۔جب معید رشیدی ساہتیہ اکیڈمی کا ایک قیمتی انعام ملنے کے نتیجہ میں نارنگ صاحب کے بارے میں میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘ اور عکاس اسلام آباد کے نارنگ نمبر کو انٹرنیٹ سے ہٹواسکتے ہیں تو نارنگ صاحب اور بھنڈر کے درمیان کسی خاموش سمجھوتے کا انتظام بھی کر سکتے ہیں۔یہ میں امکانی طور پر ستیہ پال آنند اور معید رشیدی کے کسی’’مثبت کردار‘‘کی بات کر رہا ہوں۔عمران بھنڈر اگر اپنے معرکے میں واقعی دلیر آدمی تھا تو پھر یکایک اس نے نارنگ صاحب کے بارے میں لکھنے سے ہاتھ کیوں کھینچ لیا ہے ؟مجھ پر تو بنیادی الزام یہ لگایا گیا کہ بھنڈر کے بارے میں حقائق ظاہر کرکے میں بالواسطہ طور پر نارنگ صاحب کو سپورٹ کررہا ہوں۔لیکن اس کے بعد بھنڈر کی نارنگ صاحب کے بارے میں مکمل اور گہری خاموشی سے کیا نتیجہ اخذکرنا چاہیے؟
ہماری ادبی دنیا کے رنگ ڈھنگ دیکھتے ہوئے ان باتوں پرغور کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے جس کتاب اور عکاس کے نارنگ نمبرکوانٹرنیٹ سے ہٹوانے کے لیے رشوت دی اورپاپڑ بیلے،وہ سب کچھ اب پہلے سے بھی زیادہ انٹرنیٹ فورمز پر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت
ان لنکس پر مطالعہ کی جاسکتی ہے، ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے
http://my27books.blogspot.de/2014/04/blog-post_78.html
http://haider-qureshi.blogspot.de/2013/12/blog-post_25.html
http://haiderqureshi-library.blogspot.de/2012/09/blog-post_14.html
https://archive.org/details/Dr.NarangAurMaaBaadJadeediat1stEdition
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی کتاب’’ ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ کے حصہ کے طور اس لنک سے ڈاوٗن لوڈ کی جا سکتی ہے
http://kuliat-library.blogspot.de/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ کے حوالے سے ہونے والی کسی بھی سوال یا اعتراض کا
جواب ٹھوس دلائل اورمکمل شواہد کے ساتھ فوری طورپراس لنک پر دیا جائے گا۔
http://hamara-adabi-manzarnama.blogspot.de/