میرے مضامین کی اشاعت کے دوران موصول ہونے والی بے شمارای میلز میں سے چندتاثرات
Thanks for sending me your piece. I read it with great interest and hope
that your and Professor Naim's efforts will bear fruit. Please keep up
the good work. Warmly, Muhammad Umar Memon (U.S.A.
آپ کی متعدد تحریریں پڑھ ڈالیں اور آپ کی ہمت کی داد دی کہ ڈٹے ہوئے ہیں۔جب آدمی کی اپنی غرض وابستہ نہ ہو اور حق گوئی کا عزم بھی ہو توپھر کام اسی بے باکی سے ہوتا ہے۔
محمد عمر میمن(شکاگو،امریکہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوپی چند نارنگ کے سرقات کو آپ نے طشت از بام کر کے اردو ادب کی بڑی خدمت انجام دی ہے۔
Masha'allah, very well written. You are doing a great service to modern Urdu literature.I am circulating its copies among friends and have saved it for publication in the Khabar Namah at the prpoer time.
I also read and enjoyed your hard hitting reply to Munir Sami.
شمس الرحمن فاروقی(الٰہ آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ کہ آپ اتنا سارا میٹریل فارورڈ کردیتے ہیں لیکن کچھ لوگ بہت ڈھیٹ ہوتے ہیں،اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں۔ان کا پورا کیریراسی طرح کے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔
شمیم حنفی(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے معرکے میرے علم میں ہیں اور مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ اتنے مخالف حالات کے باوجودجدید ادب بھی کامیابی سے نکال رہے ہیں اور باقی کام بھی بڑے زبردست انداز سے کر رہے ہیں۔اپنا خیال رکھیے کیونکہ جو معرکے آپ سر انجام دے رہے ہیں اس میں سب سے پہلے اپنا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ احمد ہمیش(کراچی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر نارنگ صاحب کی دھومیں مچی ہوئی ہیں۔یہ شرمناک حرکتیں صرف نارنگ صاحب ہی نہیں کرتے اور بھی کئی صاحبان انگریزی ادب سے بہت کچھ ترجمہ کر کے اپنے نام سے پیش کر رہے ہیں۔نارنگ صاحب تو اپنے عظیم سرقے پر ایوارڈ بھی وصول کر چکے ہیں۔پہلے سنا کرتے تھے کہ فلاں شاعر نے شعر چوری کر لیااب پوری پوری کتابیں ہضم ہو رہی ہیں۔ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔احمد حسین مجاہد (ایبٹ آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ادب کی خدمت ہی نہیں کر رہے بلکہ جس بے باکی اورہمت کا ثبوت دے رہے ہیں وہ آج تقریباََ ناپید ہے۔کام تو عمدہ ہو رہا ہے لیکن نارنگ کی دُم پکڑ کر چلنے والے کچھ چھَٹ بھئیوں کو پبلسٹی مل رہی ہے،جو ادبی دنیا میں کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ان کو نظر انداز کرکے نارنگی چالبازیوں پر دھیان دیجئے۔ علی جاوید(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ very, very interesting! منیشا سیٹھی(دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thanks for drawing attention to this thought provoking article by Prof.Naeem. I never knew that an eminent Urdu scholar of the repute(??) of Dr. Narang should be indulging in this kind of reprehensible act of plagairism and getting an award for the same.I remember a case when Mr.Narayanan, once an editor of daily " Hindustan Times" who lifted pasages from another author's artilces and published as his own was summarily dismissed from the editorship and has since receded into oblivion.
Knowledge is any one person's monopoly but if you rely on someone else's views of opinion, you must gracefully acknowledge it and never pass on as your own original work. Jagdish Prakash
..........................................
I thank you for being so proactively persuing the question of purity of thought, creativity and expression in Urdu making Dr.Gopi Chand Narang's case as symptomatic of the malaise.
While this kind of plagarism is condemnable unequivocally, Mr. C.M.Naim has drawn attention to another issue of manipulations in the corridors of powers to win partronage and positions.This is what had happened in case of Dr.Narang.This is a weakness of the system for which real talent suffers while mediocrity thrives.
I also wish to inform you that I am presently in Canada and will move back to India around 25th September. Jagdish Prakash
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
thanks for your e-mail . i read your clarificatory article on Dr Narang's sarqas
with interest. he seems to have crossed all limits of decency,
With regards Arshad Kamal,
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کی وضاحتی تحاریر سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اصل موضوع سے ہٹ کر غیرضروری موضوعات سامنے لائے جارہے ہیں ۔ہمارے سامنے بارہ برسوں سے ایک ہی سوال رہا ہے آیا ڈاکٹر گوپی چند نا رنگ کی مذ کورہ کتاب تصنیف کہلائی جائیگی یا ترجمہ و تا لیف بلا حوالہ و صراحت؟۔۔۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی بارہ سالہ خاموشی اور جناب عمران شاہد بھنڈر کی محققانہ مساعی سے اب یہ ثابت ہوگیا کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ ساختیات ، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات ‘‘ تصنیف نہیں بلکہ ترجمہ و تالیف بلا حوالہ و تصریح ہے اور یہ کتاب ادب کی تاریخ میں اس طرح درج ہوگی(بنام مطیع الرحمن عزیز)۔عبداللہ جاوید(کینیڈا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا پورا مضمون بڑی ہی توجہ سے پڑھا۔گو نارنگ صاحب سے میرے کافی اچھے تعلقات ہیں۔سرقہ والی بات پر مجھے زیادہ حیرت نہیں ہے۔حیف ہے ان اردو دانوں پر جو نارنگ صاحب کی جوتیاں سیدھی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔آپ شیر کی کچھار میں اکیلے ہی للکارنے والے ہیں کیونکہ اردو کے ضمیر فروش آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ مجھے نوکری نہیں کرنے دیں گے۔جناب جب اتنے زبردست مضامین اور مباحث کی تفصیلات بھیجیں گے تو انسان تو ان کے مطالعہ میں ہی لگا رہے گا۔اور وہ ان دلچسپ مگر شرمناک حقائق کا مطالعہ کرنے میں پورا دن لگا دے گا۔آپ کی میل ملی تو سمجھ لیجیے پڑھنے میں پورا دن ہی لگ گیا۔اور میں نے سوچا کہ جب مجھے پڑھنے میں اتنا وقت لگا ہے تو آپ نے نوکری کے باوجود اور وہاں کی مصروف زندگی کے باوجود کیسے لکھنے میں اتنا وقت دیا ہو گا۔یہ ادب کے لیے آپ کی بے لوث لگن ہی ہے ۔خدا آپ کو سلامت رکھے۔ وسیم راشد ۔دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
It is an interesting debate indeed. I would try to follow both sides as a student of Urdu literature. So far you seem to have been using proper references and that shows the objectivity.Although these kind of Manashqaat are unfortunate for Urdu literature however for some of us these become a great learning experience. Ahmad Safi (karachi)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچائی ، تمام تر خوب صورتیوں کے باوجود کس قدر ہولناک ہوتی ہے ۔ڈاکٹر نارنگ صاحب کا مداح تھا،مگر اُن سے بہت پہلے حیدر قریشی صاحب آپ کی صلاحیتوں کا امین بھی ۔افسوس ہے ، ڈاکٹر صاحب ایک علمی گفتگو کو مذہب کی طرف لے جا رہے تھے۔آپ نے اُنھیں شیربننے کا مشورہ بھی دیا مگر، نارنگ صاحب زمانہ شناس ہیں، اچھا کیا باز رہے۔یقین رکھتا ہوں آپ اوربہت سے علمی پردے اُٹھائیں گے۔ خالد ملک ساحل (ہمبرگ، جرمنی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاء اللہ بہت اچھا۔نارنگ جی پرآپ ہی ہاتھ ڈال سکتے ہیں،کسی اور میں اتنی جرات کہاں!
میں نے مضمون دیکھا ہے۔کمال کی پکڑ کی ہے آپ نے۔مجھے بھی اس کی ان پیج کاپی sendکریں۔میں بھی اس کو پوسٹ کرتا ہوں۔ سلیمان جاذب۔(دبئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نارنگ کی سرقہ شدہ کتاب کے مسئلہ کو جس طرح آپ نے اُٹھایا ہے ،یہ بہت بڑاجرات مندانہ ادبی کارنامہ ہے۔اس ہمت و جرات پر مبارکباد! مبشر سعید (فرانس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر گوپی چند کی پہاڑ جیسی شخصیت اورآپ کی صورِ اسرافیل جیسی علمی و ادبی ضرب کی آواز،یہ توقیامت ہی کامنظر ہو گیاصاحب!۔وہ جو سنتے تھے کہ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے،علمی دنیا میں تو یہ سچ مچ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ناصر نظامی(ایمسٹرڈیم،ہالینڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرانی کی بات ہے کہ ڈاکٹر نارنگ اپنے کھلے سرقوں کے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے الٹا شخصی الزام تراشیوں پر اتر آئے ہیں۔ان کی ادبی عظمت چکنا چور ہو چکی۔ جیم فے غوری (اٹلی)