(جدید ادب جرمنی کے اداریہ کا زیر بحث حصہ)
ساختیات اور مابعد ساختیات کی بحث سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی عالمانہ مضامین اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ان کے حق میں بھی۔۔۔ان کی مخالفت میں بھی۔۔اور ان کے درمیان توازن کی ایک حد قائم کرنے والے بھی۔ان سب کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ادبی مباحث کا اپنا ایک طریقِ کار ہوتا ہے،یہ چلتا رہنا چاہئے۔تاہم یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ جب ادب میں ترقی پسند تحریک اثر انداز ہونے لگی تھی تب بہت جلدیہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ تحریک اپنے بہت سے مثبت اثرات کے باوجود سوشلزم اور کمیونزم کی تبلیغ اور دیگر مقاصد کے حصول کا فریضہ ادا کرنا چاہتی ہے۔بعینہ جب ساختیات اور ما بعد ساختیات کے مختلف زاویوں کے چرچے ہورہے تھے تب بعض مضامین میں بڑی وضاحت سے باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ متن اور مصنف کا یکسر انکار کرکے قاری کی اہمیت کو اجاگر کرنا در اصل امریکی حلقوں کی طرف سے بعض مذہبی حلقوں کے خلاف اقدام کرنا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر تمام آسمانی کتب کے متن اور خالق کی نفی ہو جاتی ہے۔اسی طرح جہاں جنرل تھیوری کے ناقابلِ عمل ہونے کی بات ہوئی وہیں Deconstruction کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آیا۔اب جبکہ امریکہ نے افغانستان اور عراق پر اپنی Deconstructionکی تھیوری کا اطلاق کرکے دکھا دیا ہے، یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ تھیوری کی دنیا میں رہنے کے ساتھ اس کے عملی مظاہر کے تناظر میں بھی اس کا جائزہ لیا جائے۔یہ کام ہمارے اُن دانشوروں کے ہاتھوں زیادہ بہتر طور پر ہو سکے گا جو اس موضوع سے متعلق موافقت یا مخالفت میں لکھتے رہے ہیں ،یا لکھ رہے ہیں۔امید ہے ہمارے ایسے تمام دانشور اس طرف خصوصی توجہ فرمائیں گے،اور اس ڈسپلن کے عملی پہلوؤں کو زیرِ بحث لا کر زیادہ بہتر گفتگو ہو سکے گی۔
( مطبوعہ جدید ادب جرمنی ،شمارہ :۱،جولائی تا دسمبر ۲۰۰۳ء)