’ الفاتحہ‘
آسماں پہ روئی کے گالوں جیسے چند بادلوں کے ٹکڑے آپس میں اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دئیے ہی تھے کہ دھُند کی چادر نے کائنات کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ جب رات نے دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلائے تو ہر چیز نظروں سے اوجھل ہوتی گئی۔ چاروں طرف بس بھیگاہوا سا سرد دھُواں ماحول کو خوفناک بنانے لگا۔ ایسے میں سرمئی ٹھٹھرتی ہوئی رات میں بادلوں کی اوٹ سے نئی نویلی دُلہن کی طرح شرماتے ہوئے چاند نے اپنا چہرہ دکھایا۔ ایسے لگا جیسے اندھیرے میں ڈوبی کوٹھڑی میں کسی نے چھوٹی سی موم بتی جلائی ہو۔ اور پھردسمبر کی پہلی رات قطرہ قطرہ پگھلنے لگی۔ وہ ہنوز آنگن میں رکھے تخت پہ بیٹھی اُس دُشمن جاں کی یادوں کو سینے سے لگائے سسک رہی تھی۔ یخ ٹھنڈی ہوا اُس کی پیشانی پہ بکھرے بالوں سے چھیڑ خانی کرنے لگی۔ لیکن وہ اس سب سے بے پروا چاند کو تکے جا رہی تھی۔ جو اب بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھا۔ کبھی بادل چاند کو گھیر لیتے کبھی چاند بادلوں کو گھیر لیتا۔
’انوشے۔۔ میرے ناتواں وجود میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اس وجود کو برف کر دینے والی سردی میں چند منٹ اور بھی ٹھہر سکوں۔ ‘
بی بی جان کی سردی سے کانپتی آواز پہ وہ فوراً اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے تخت سے اُٹھی اور بی بی جان کو اپنے بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے بولی۔
’سوری بی بی جان ! آپ کیوں باہر آئی ہیں میں بس اندر آنے ہی لگی تھی۔ ‘
’ چپ ہو جاؤ بی بی جان سے جھوٹ بولتے شرم نہیں آتی تمہیں، میں اگر نہ آتی تو تم ساری رات ادھر ہی گُزار دیتیں۔ ‘
بی بی جان نے انوشے کے ساتھ بر آمدے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ وہ خاموشی سے اُن کے ساتھ چلتی اپنے اوربی بی جان کے مشترکہ کمرے میں آ گئی اور بی بی جان کے ساتھ اُن کی نرم و گرم محبت بھری آغوش میں لیٹ گئی۔
٭٭
درازپلکیں، وصال آنکھیں مصوری کا کمال آنکھیں
ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں خُدا کے بندے سنبھال آنکھیں
دھوپ آہستہ آہستہ اپنے پر سمیٹنے لگی۔ پرندوں کی مختلف بولیاں فضا میں گونجنے لگیں۔ کنویں کے پاس گاؤں کی الہڑ مٹیاریں اپنے گھڑوں میں پانی بھرنے کے ساتھ ساتھ ہیر رانجھے کی داستان نئے سرے سے فضا میں بکھیر رہی تھیں۔
’ اوئے ہیر دیکھ تیرا رانجھا شہر سے آ گیا ہے۔ ‘
زُلیخا کی سکھیوں میں سے ایک نے چوہدری یوسف حیات خان کو اپنے خاص ملازم بخشو کے ساتھ آتے دیکھ کے یہ فقرہ ہوا میں اُچھالا۔ زُلیخا نے سُنتے ہی دھڑکتے دل کے ساتھ اُس کی نظروں کے تعا قب میں دیکھا۔ اُسی وقت یوسف نے بھی نظریں اُٹھائیں۔ پل بھر کے لیے نگاہوں کا تصا دم ہوا تھا۔ اُس تصادم نے جذ بات کا تبادلہ بخوبی سر انجام دیا تو زُلیخا کے چہرے پہ حیا کی لالی دھنک رنگ اوڑھ کے اُمڈ آئی۔ جسے دیکھ کے اُس کی سکھیوں نے کھی کھی کرنا شروع کر دیا۔ اُس نے فوراً نظریں جھُکاتے اپنا گھڑا پکڑنے کے لیے ابھی ایک قدم اُٹھا یا ہی تھا کہ زمین پہ پڑے کنکر نے اُسے لڑکھڑانے پہ مجبور کر دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ توازن بر قرار نہ رکھنے کی وجہ سے زمین بوس ہوتی۔ یو سف کے مضبوط سڈول بازؤں نے اُسے تھام لیا۔
پھر نظریں ملیں جذبات مچلے۔
اُسی وقت اُس نے اُسے سیدھا کھڑا کیا اور بنا کچھ کہے آگے کی جانب قدم بڑھا دئیے۔ اُس کے پیچھے سر جھکاتے بخشو نے بھی۔
’خدا کی قسم دونوں ساتھ کھڑے ہوں تو ایسے لگتا جیسے خُدا نے ان کو بنایا ہی ایک دوسرے کے لیے ہے۔ ‘ اُن کے جاتے ہی نوشی نے زُلیخا کا گھڑا اُٹھا کے اُسے پکڑاتے ہوئے کہا۔
’ کیا بات کرتی ہو تم بھی، لگتا کیا، زُلیخا کو خُدا نے بنایا ہی یوسف کے لیے ہے۔ ‘
وہ سب الہڑ مٹیاریں گھڑے اُٹھائے اپنے گھروں کی جانب چلتے ہوئے زُلیخا کے دل میں مچلتے ارمانوں کو یقین دلا رہی تھیں کہ یوسف زُلیخا کو ہی ملے گا۔ اب نجانے یوسف اور زُلیخا مل پائیں گے یا نہیں۔ یہ تو بس اللہ ہی جانتا تھا۔
٭٭
تم آرزوکے دئیے جلا کے خُدا سے اچھی اُمید رکھنا
خزاں کے موسم کی رُخصتی پہ بہار گُل کی نوید رکھنا
’فریسہ۔۔ ۔ فریسہ۔۔ ۔ کیا ہوا ہے ؟ ‘
اُسے اپنے کمرے میں گُم صم بیٹھے دیکھ کے زرتاشہ نے اُس کا کندھا ہلاتے ہوئے پوچھاتو وہ جیسے کسی خواب سے جاگی تھی۔
’ آں۔۔ ہاں۔۔ کچھ نہیں، تم کب آئی؟‘
اُسے اپنے بیڈ کے پاس کھڑے دیکھ کے اُس نے پوچھا۔
’میں ابھی آئی ہوں لیکن تم مجھے بتاؤ کہ تم اپنے سیاں سُپر سٹار کا جوگ کب تک منانے کا ارادہ رکھتی ہو؟‘
زرتاشہ نے غصے کے ساتھ اُس سے پوچھا۔
’زری میں کیا کروں ؟ مجھے وہ شخص نہیں بھولتا، اللہ سے کہو نابس مجھے میرا سکندر دے دیں، بس میری یہ دُعا قبول کر لیں۔ ‘
اُس نے چھلکتی آنکھوں کے ساتھ زرتاشہ کے کندھے پہ سر ٹکاتے ہوئے کہا۔ زرتاشہ اُسے روتے دیکھ کے پریشان ہو گئی، اُس کا کندھا تھپکتے ہوئے بولی۔
’فری۔۔ یوں خود کو اذیت دینے کا کیا فائدہ میری جان؟ سنبھالو خود کو پلیز۔ پریشان ہونے کی بجائے بس اللہ سے دُعا کیا کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘
’کیسے ٹھیک ہو گا زری؟ دو سال ہو گئے ہیں اُسے دُعاؤں میں مانگتے، اب میں تھکنے لگی ہوں۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ میں اُسے کبھی نہیں پا سکوں گی، یہ بات اندر ہی اندر مجھے ختم کر رہی ہے۔ ‘
’تم اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہو رہی ہو فری؟ بھول گئی حضرت آدم ؑ کتنے سال اللہ کے آگے گڑ گڑائے تھے اور پھر اللہ نے حضرت آدم ؑ پر سورۃ الفاتحہ نازل کی۔ تمہیں پتہ سورۃ الفاتحہ کی آیات مبارکہ میں کیا سمجھایا گیا ہے ؟‘ زرتاشہ کی بات پہ اُس نے اُس کے کندھے سے سر اُٹھا کے اپنے آنسو صاف کرتے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’ ہاں تو پتہ ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے اس کی سات آیتیں اور ایک رکوع ہے۔ اس کی پہلی تین آیات میں اللہ کی حمد و ثناء یعنی تعریف بیان کی گئی ہے اور چوتھی آیت میں اللہ اور بندے کے درمیان تعلق یعنی مشترک آیت ہے اور آخری تین آیات بندوں کی ہدایت کے لیے ہیں اور۔۔ ۔۔ ۔ ‘
ابھی اُس کی بات جاری تھی کہ زرتاشہ نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
’ نہیں فری میں نے تم سے سورۃ الفاتحہ کا تعارف نہیں پوچھا میں نے یہ پوچھا کہ سورۃ فاتحہ کو نازل کرنے کا مقصد کیا تھا، اللہ تعالیٰ اس میں حضرت آدمؑ کو کیا سمجھانا چاہتے تھے ؟ اللہ کے آگے گڑ گڑا تو وہ کئی سالوں سے رہے تھے۔ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ اس آیت مبارکہ میں کیا سمجھایا گیا ہے اس میں اللہ سے مانگنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ جب کسی بزرگ ہستی سے کوئی دُعا کرنی ہو تو سب سے پہلے اُس کے درجے، عُہدے اُس کے بزرگ اور ربوبیت کا اظہار کرنا۔ اُس کے اختیار کو ماننا اور دوسرے درجے پر اپنے کم تر ہونے کا اعتبار رکھنا۔ اور خود کو اس بات کا یقین دلانا کہ جس کے سامنے آپ دُعا کر رہے ہیں وہ اس کو قبول کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ پھر اپنی دُعا کو اچھے اور احسن طریقے سے پیش کرنا پھر اس کے قبول کر لینے کی التجا کرنا اور تمہیں پتہ سورۃ الفاتحہ جیسی کوئی سورۃ پہلی کتابوں تورات، زبور یا انجیل میں نہیں آئی اور قر آن مجید میں بھی اس سورۃ کی کہیں تکرار نہیں بلکہ اس کے باوجود ہماری عبادات میں اس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سورۃ الفاتحہ ہماری نماز کا ایک لازمی جُز ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لو کہ یہ واحد سورۃ ہے جس کے بیس نام ہیں۔
فاتحۃ الکتاب
فاتحۃ القر آن
اُم الکتاب
اُم القر آن
القر آن العظیم
السبع المثانی
الواقیہ
الکنز
الاساس
الکا فیہ
سورۃ الحمد
سورۃالشکر
الرقیہ
الشفاء
الصلوٰۃ
الدعا
النوال
تعلیم المسئلہ
منا جاۃ
تضویض
اب تم مجھے بتاؤ جب تم دُعا ہی بُجھے دل کے ساتھ مانگتی ہو کہ اللہ تعالیٰ سکندر کو مجھے دے دیں یا اللہ تعالیٰ اُس کے دل میں بھی میری محبت پیدا کر دیں وغیرہ وغیرہ، بس اتنا کہہ کے تم سمجھتی ہو تم نے دُعا مانگی ہے ؟‘
’تم ٹھیک کہہ رہی ہو مجھے ہی مانگنے کا طریقہ نہیں آتا تھا، شاید اسی لیے میری دُعا قبول نہیں ہوئی، لیکن اب مجھے اللہ سے مانگنے کا طریقہ آ گیا ہے اب انشاء اللہ میری دُعا ضرور قبول ہو گی۔ ‘
فری نے ایک یقین کے ساتھ کہا تو زری نے شُکر ادا کیا کہ وہ اُس کے دل میں اچھے کی اُمید جگانے میں کامیاب ہوئی تھی۔
٭٭
وہ بُرج خلیفہ کے سامنے جنگلے سے ٹیک لگائے کھڑی کب سے بے چینی سے پہلو بدلتی بار بار اپنی کلائی میں پہنی خوبصورت سی گھڑی پہ نگاہیں ڈالتی۔ اُس کا انداز ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بہت شدت سے کسی کا انتظار کر رہی ہے۔ آخر دس منٹ اور انتظار کے بعد اُس کی نگاہوں کو قرار آ گیا جب وہ اُسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ بلیک شلوار قمیض پہنے کندھوں پہ کالی چادر اورپاؤں میں بلیک کھُسہ ڈالے، گھنی مونچھوں تلے مُسکراتے لب اُسے ہیپنو ٹائز کر رہے تھے۔ اُس کے ہر اُٹھتے قدم کے ساتھ اُس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ بلاشُبہ وہ دُنیا کے خوبصورت اور موسٹ پرسنیلٹڈ مردوں میں سے تھا۔
’جناب نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا؟‘
اُسے یک ٹک اپنی طرف تکتا پا کے اُس نے پاس پہنچ کے دھیرے سے اُس کے کان میں سرگوشی کی تو اُس نے سٹپٹاتے ہوئے نظریں جھُکا لیں، اُس کے چہرے پہ دھنک رنگ بکھرنے لگے اور وہ اُن رنگوں میں کھونے لگا، سفید ٹراؤزر پہ بلیک ٹی شرٹ اور اُس کے اوپر گھُٹنوں تک آتا کوٹ پہنے، سر پہ بلیک سکارف لپیٹے ہوئے کوئی باربی ڈول لگ رہی تھی۔ اور اُس کی گھنی پلکیں محو رقص تھیں۔
وہ دھیرے سے مُسکرا دیا دل آویزی سے۔
اُس نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
’انوشے۔۔ آئی کانٹ بلیو یار کہ تم شرماتی بھی ہو، ریلیکس ہو جاؤ پلیز۔ ‘
’ آپ جیسے بندے کے سامنے کوئی ریلیکس کیسے رہ سکتا ہے۔ ‘
اُس نے اپنا رُخ موڑ کے سمندر کے پانی پہ پڑتی رنگ برنگی روشنیوں کے عکس کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
وہ بھی دو قدم اُٹھا کے اُس کے ساتھ جنگلے پہ بازو ٹکاتے ہوئے بُرج خلیفہ کو تکتے ہوئے بولا۔
’میرے جیسے بندے سے کیا مُراد ہے تمہاری؟‘
لہجے سے شرارت جھلک رہی تھی۔ اُس نے کوئی جواب نہ دیا، دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔
جب دومحبت کرنے والے پاس ہوں تو لفظوں کی ضرورت نہیں رہتی تب نگاہیں بولتی ہیں، دھڑکنیں آپس میں عہد و پیماں باندھتی ہیں، ان کہے جذبے آشکار ہوتے ہیں۔ اُس وقت خاموشی سے زیادہ با معنی گُفتگو کوئی اور لگتی ہی نہیں۔ دھیرے دھیرے دھڑکنیں اپنے عہد و پیماں باندھ کے معمول پہ آنے لگیں۔ اُس نے بہت آہستگی سے جنگلے پہ رکھے اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔
’ شاہ ویز۔۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ آپ آئیں گے لیکن آپ نے آ کے میری محبت کو معتبر کر دیا ہے، مجھے محبت سے عشق تک کا سفر طے کرنے کے لیے آپ نے اعتبار سونپ دیا ہے، جس کے سہارے میں ساری زندگی آپ کا انتظار کرتے گُزار دوں تو کوئی دکھ یا ملال نہیں ہو گا۔ ‘
’ ویل۔۔ ! ‘
اُس نے اُس کا ہاتھ تھا ما اور لوگوں کے ہجوم سے نکلتا ہوا پُر سکون گوشے کی طرف لے گیا، ایک بینچ پہ خود بیٹھا اور اپنے سامنے والے بینچ پہ اُسے بٹھا کے اُس نے بات شروع کی۔
’ انوشے یہ بات بجا ہے کہ میں پاکستان سے ادھر صرف تمہارے لیے آیا ہوں لیکن صرف تمہیں سمجھانے کے لیے، تمہاری محبت میں نہیں۔ ہزار دفعہ پہلے بھی کہہ چُکا ہوں کہ میری بات پچپن سے میری کزن سے طے ہے، میرے بڑے اپنی زبان کے بہت پکے ہیں اُن کے منہ سے نکلی ہر بات پتھر پہ لکیر ہوتی ہے۔ وہ سب چھوڑو تم مجھ سے بہت چھوٹی ہو تمہارے بارے میں، میں ایسا کچھ سوچ بھی نہیں سکتا، اور۔۔ ‘
اُس کی ہیزل گرے آنکھوں سے گرنے والے موتیوں نے اُسے اپنی بات بھی مکمل نہیں کرنے دی۔ وہ اس بن موسم برسات سے ڈسٹرب ہوا تھا۔
’اور اس لیے اب تم مجھے بھول جاؤ، یہی کہنا تھا نا آپ نے ؟ اور آپ ہر دفعہ مجھے بھولنے کا کیوں کہتے ہیں ؟ میں بھی ہزار دفعہ کہہ چُکی ہوں نہیں بھول سکتی میں آپ کو۔ میں نے آج تک آپ سے کچھ نہیں مانگا نہ ہی آئندہ کبھی مانگوں گی۔ صرف آپ کو چاہنے کا حق میں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔ یہ حق تو نہ مجھ سے چھینیں پلیز شاہ۔۔ ۔ ‘
عجیب التجا تھی۔ سسکیوں کی تال پہ آرزوئیں رقص کر رہی تھیں۔
وہ اُس کا ہاتھ چھوڑ کے بینچ کی بیک سے ٹیک لگا کے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے بولا۔
’ عجیب لڑکی ہو ایک سال سے سمجھا رہا ہوں لیکن تم پہ ذرا اثر ہی نہیں ہوتا۔ نجانے کس ڈھیٹ مٹی سے اللہ نے تمہیں بنایا ہو گا۔ ‘
’ اُسی ڈھیٹ مٹی سے شاہ۔۔ جس ڈھیٹ مٹی سے اللہ نے آپ کو بنایا ہو گا۔ ‘
اُس نے بھیگی پلکوں کے ساتھ شرارت سے کہا۔
ایک حسین مُسکراہٹ نے شاہ ویز کے لبوں کو چھوا تھا، مُسکراہٹ سے اُس کے دائیں گال پہ اُبھرنے والے ڈمپل میں اُس کا دل ڈوبا تھا۔
؎اُس کے رُخسار پہ ڈمپل نے قیامت کر دی
ایک چھوٹے سے بھنور میں میرا دل ڈوب گیا
’ آپ کہتے ہیں کہ آپ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔ خوب جھوٹ کہتے ہیں۔ ‘
وہ بھی بینچ کی بیک سے ٹیک لگا کے دونوں ہاتھ اُسی کے انداز میں سینے پہ باندھتے ہوئے گویا ہوئی۔
’ ویل۔۔ ثابت کرو اس بات کو۔ ‘
’ اگر ثابت کر دیا تو۔۔ ۔ ؟؟؟‘
’ تو جو تم کہو گی۔ ‘
’ اگر آپ کی بات سچ ہوتی تو آپ آج بلیک کلر پہن کے نہ آتے۔ ‘
وہ دل نشینی سے ہنس دیا، جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکال کے اُس نے بہت شرافت کے ساتھ جھُکتے ہوئے اُس سے اجازت طلب کی۔
’ اگر اجازت ہو تو میں ادھر سموکنگ کر سکتا ہوں ؟‘
’ اگر میں انکار کر دوں تو ؟‘
انوشے نے سیدھے ہو کے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’ تو میں پھر بھی کروں گا۔ ‘
اُس نے کہتے ہوئے لائٹر جلا کے سگریٹ سلگایا اور ایک کش لگاتے ہوئے سارا دھُواں اُس کے منہ پہ چھوڑ دیا۔ اور وہ اُس کی اس حرکت پہ بس مُسکرا کے رہ گئی۔
دسمبر کی لمبی سرد راتیں اُسے ہمیشہ سے ہی اُکتا دیا کرتی تھیں، ایسی ہی ایک رات تھی جب وہ ٹائم پاس کرنے کے لیے فیس بُک پہ پیپلیو مے ناؤ میں موجود لوگوں کی آئی ڈیز کھول کے دیکھ رہی تھی۔ اُنہی آئی ڈیز میں سے ایک شاہ ویز کی آئی ڈی تھی وہ اُس شخص کی تصویریں دیکھ کے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہوئی تھی۔ اُس نے ریکویسٹ کے آپشن پہ کلک کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا تھا۔ کچھ گھنٹوں بعد ہی اُس کی ریکویسٹ ایکسیپٹ کر لی گئی تھی۔
پھر دھیرے دھیرے وقت گُزرنے کے ساتھ اُسے محسوس ہونے لگا کہ اُس شخص کی محبت وحی کی صورت اُس کے دل میں اُترنے لگی ہے۔ جب اس خوبصورت اقرار کا میسیج اُس نے شاہ ویز کو سینڈ کیا تو وہ اُسے اگنور کرنے لگا لیکن وہ پھر بھی ڈھیٹ بن کے میسیج کرتی رہتی۔ آخر کار تنگ آ کے اُسے جواب دینا ہی پڑتا۔ وقت کے ساتھ اُس کی محبت کی شدتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ جو کہ شاہ ویز کے نزدیک صرف بچپنا تھا۔ وہ اُسے سمجھاتا، میسیج کرنے سے منع کرتا لیکن اُس پہ کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا یوں ہی ایک سال بیت گیا۔ اور اب اُسے پچھلے پندرہ منٹ سے سموکنگ کرتے دیکھ کے آخر کار وہ بول پڑی۔
’ اینف شاہ۔۔ سموکنگ ہی کرنی تھی تو اُدھر رہ کے ہی کر لیتے اُس کے لیے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘
اُس نے آخری کش لگا کے پھر سارا دھُواں اُس کے منہ پہ چھوڑ دیا اور وہ پیچ و تاب کھا کے رہ گئی۔
’ بولو۔۔ ۔ اب کیا مسئلہ ہے ؟‘
’ مجھے بھوک لگی ہے آئیں کھانا کھانے چلتے ہیں۔ ‘
وہ اُٹھتے ہوئے بولی وہ بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور بُرج خلیفہ کے پاس ہی واقع ارمانی ہوٹل کی جانب چل دیے۔
٭٭
درداتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
وہ کلاس میں بیٹھ کے سر حافظ کا انتظار کر رہے تھے کہ کلاس کے سی آر نے آ کے اطلاع دی۔
’ آج سر حافظ نہیں آئے اس لیے لیکچر نہیں ہو گا آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ ‘
یہ سُنتے ہی کچھ سٹوڈنٹس کلاس سے باہر جانے لگے تو کچھ کلاس میں ہی گروپس کی شکل میں بیٹھ کے باتیں کرنے لگے۔ ضوباریہ بھی ابھی اپنی سیٹ سے اُٹھنے ہی لگی تھی کہ اُس نے سکندر کا بیگ زمین پہ گڑتے دیکھا، جسے سکندر نے کرسی پہ بیٹھے ہی اُٹھا لیا اور ہاتھ میں پکڑی نوٹ بُک اندر رکھ کے زپ بند کی اور اپنے دوستوں کے ہمراہ کلاس سے باہر چلا گیا۔ ضوباریہ کی نظریں اُس ڈائری پہ پڑیں جو سکندر کے بیگ سے نکل کے کرسی کے نیچے چلی گئی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور وہ ڈائری اُٹھا کے وہ بھی سکندر کے پیچھے کلاس سے باہر نکل آئی۔ کاریڈور سے ہوتے سیڑھیاں پھلانگ کے پھر ایک لمبے سے کاریڈور سے ہوتے ہوئے مین اینٹرینس کا گیٹ عبور کر کے باہر نکل آئی۔ وہ ابھی کیفے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ اُس نے سکندر کی کار کو پارکنگ ایریا سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ جا چُکے تھے۔ اُس نے وہ ڈائری اپنے بیگ میں رکھ لی اوراپنا فون نکال کے ڈرائیور کو کال کی کہ وہ اُسے لے جائے۔
رات کو سوتے وقت اُسے سکندر کی ڈائری کا خیال آیا۔ اُس نے بیگ سے ڈائری نکالی۔ بیڈ کی بیک سے ٹیک لگاتے دھڑکتے دل کے ساتھ اُسے کھولا۔ وہ اُس کی پرسنل ڈائری تھی۔ دل اور تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اُس نے ڈائری بند کر کے سینے سے لگا لی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ یہ اُس کے محبوب کی ڈائری تھی۔ جس میں اُس کے راز دفن تھے۔ اُن رازوں کو آج اُس نے اپنے سینے میں دفن کرنا تھا۔ اُس نے ہمت کرتے ہوئے ڈائری کھولی اور پڑھنے لگی۔۔ ۔۔
تمہاری محبت ابر کی صورت تب سے مجھ پہ برستی آئی ہے جب ابھی میں نے جوانی کی دہلیز پہ قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ بچپن سے ہی میں تمہاری محبت کی پھوار میں بھیگتا آیا ہوں۔ میں جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں تمہارا حسین چہرہ میری پلکوں کے دریچوں پہ آ ٹھہرتا ہے۔ میرے ہاتھ جب بھی دُعا کو اُٹھیں تیرا نام لبوں پہ آ ٹھہرتا ہے۔ بچپن میں تمہاری محبت کا جو بیج میں نے اپنے دل میں بویا تھا۔۔ جوانی کی دہلیز پہ پہنچتے پہنچتے وہ ننھا سا محبت کا پودا تناور درخت بن چکا ہے جسے اگر اب میں نے اپنے اندر سے اُکھاڑنے کی کوشش کی تو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جاؤں گا۔ خُدا گواہ ہے کہ میں نے اُس کی بارگاہ میں کبھی تمہارے سوا کچھ نہیں مانگا۔۔ تمہاری محبت کا راز بھی صرف میرے اور میرے خُدا کے درمیان ہے۔ میں نے اس راز میں اپنے جگری دوست کو بھی شامل کرنا گوارا نہیں کیا۔ اس لیے ڈائری کے سپرد کر رہا ہوں۔ یہ ڈائری میری محبت کی گواہی دے گی، جب میں تمہیں پا لوں گا تب یہ ڈائری میں تمہیں گفٹ کروں گا۔ میں جانتا ہوں میں یوسف نہیں ہوں، میں سکندر ہوں، لیکن اس دفعہ زُلیخا سکندر کو عطاء کی جائے گی، مجھے میرے رب پہ یقین ہے، مجھے میری محبت پہ یقین ہے۔ وہ وقت اب دور نہیں جب میں اپنی محبت کی پھوار میں تمہیں بھی سارے کا سارا بھگو دوں گا۔
اُس نے ڈائری بند کر کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی۔ اس سے زیادہ پڑھنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی۔ اُس نے خاموشی سے اپنی آنکھیں موند لیں۔
٭٭
کوئی چیخ پڑتا ہے درد سے
کوئی بس چُپ سا ہو جاتا ہے
پورا ہفتہ اُنہوں نے دُبئی کے تفریحی مقامات پہ گھومتے گُزارا تھا۔ اس ایک ہفتے میں شاہ ویز نے اُسے اتنا پیار دیا تھا کہ وہ خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کرنے لگی تھی۔ اُسے حیرت ہوتی کہ یہ وہ ہی سخت اکڑو سا بندہ ہے جس نے فیس بُک پہ کبھی اُس سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں کی تھی۔ اس وقت وہ بہت استحقاق سے دونوں ہاتھوں سے اُس کا بازو تھا مے صفا پارک کی نرم گھاس پہ اُس کے قدم سے قدم ملا کے چل رہی تھی۔ خوشی اُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
اور کیوں نہ پھوٹتی ؟
ویسے بھی جب من چاہا محبوب پاس ہو تو ساری کا ئنات کی خوشیاں اپنے ارد گرد رقص کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اور آج تو وہ اس وجہ سے بھی خوش تھی کہ کل اُس کے ماں باپ عمرے کی سعادت حاصل کر کے لوٹنے والے تھے۔ وہ شاہ ویز کو اُن سے ملوانا چاہتی تھی۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اُس کی زندگی کی کایا پلٹنے والی ہے۔ بے خبری بھی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ اسی بے خبری میں مُگن وہ اپنی زندگی کے چند گھنٹوں کے حسین لمحے انجوائے کر رہی تھی۔
’ شاہ اب بیٹھ جائیں میں تھک گئی ہوں۔ ‘
اُس نے سامنے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تو اُس نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے قدم اُس طرف موڑ دیے اور پھر جب بینچ پہ بیٹھ کے بھی انوشے نے اُس کا بازو نہ چھوڑاتو شرارت اُس کی خوبصورت براؤن آنکھوں میں چمکی۔
’ انوشے۔۔ ؟‘
اُس نے اُسے پُکاراتو اُس نے سر اُٹھا کے اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’یارایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ ‘
’کیا؟‘ انوشے نے بھنویں اُچکاتے ہوئے پوچھا۔
’ تم ہمیشہ میرا بازو کیوں پکڑے رکھتی ہو؟ ایسے جیسے میرے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر ایسا اندیشہ بھی ہے تو تم چھوٹی سی ہو۔ کیا مجھے بھاگ جانے سے روک سکتی ہو؟ اور اگر۔۔ ۔ ‘
ابھی اُس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ انوشے نے دوسرے ہاتھ کا مُکا بنا کے اُس کے سینے پہ دے مارا۔
’ اور اب دیکھو بچوں کی طرح مار رہی ہو۔ ‘
’جی نہیں۔ میں بچی نہیں ہوں۔ ‘ اُس نے منہ پھُلاتے ہوئے کہا۔
’ تو پھر کیا ہو؟‘
’پتہ نہیں۔ ‘
’پھر کس کو پتہ ہے ؟‘
’پتہ نہیں ‘
’ اچھا یار سُنو تو۔ ‘
اُسے دوسری طرف منہ پھیرتے دیکھ کے اُس نے اُسے پُکارا تو وہ روٹھے لہجے میں بولی۔
’کیا ہے ؟‘
’اچھا ہوا کہ تم چھوٹی ہو، اگر بڑی ہوتی تو تم نے شاہ جی کی بجائے میلا بے بی میلا بے بی کرتے رہنا تھا ہر وقت، اور مجھ جیسے شریف سے بندے نے ویسے ہی شرم سے ڈوب مرنا تھا۔ ‘
اُس نے کچھ اس ادا سے میلا بے بی اور شرم سے ڈوب مرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ اُس سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔
’شاہ جی۔۔ !!! ‘ اُس نے اپنا سر اُس کے بازوپہ ٹکاتے ہوئے اُسے پُکارا۔
’ بولو۔۔ ‘
’میرا دل کرتا ہے کہ میں ایک ناول لکھوں۔ ‘
’ اوہ ڈیٹس رئیلی گریٹ ضرور لکھو، نام کیا ہو گا ا اُس ناول کا؟‘
’ بتا دوں ؟ ‘
اُس نے جھجھکتے ہوئے سر اُٹھا کے اُس کی طرف دیکھتے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے پوچھا۔
’ اوہ کم آن بتاؤ نا، اس میں شرمانے کی کیا بات ہے۔ ‘
اُسے لگا کہ وہ شرما رہی ہے اس لیے اُس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’ ناول کا نام ہو گا۔۔ ۔۔ میرا دیسی ٹیپیکل سیاں۔ ‘
اب گھورنے کی باری شاہ ویز کی تھی اور ہنسنے کی انوشے کی۔
’ خبردار یہ اسٹوپڈ سا نام رکھا۔ ‘ اُس نے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔
’ اچھا یہ بتائیں کل آپ آ رہے ہیں نا مام ڈیڈ سے ملنے ؟‘ اُس نے اُس کے گھورنے پہ جلدی سے بات بدلتے ہوئے کہا۔
’ کل میری فلائیٹ ہے اس لیے کچھ کہہ نہیں سکتا، کوشش ضرور کروں گا۔ ‘
’یہ کیا بات ہوئی، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے آج کی رات ہوٹل میں ٹھہرنے کی بجائے ہمارے گھر ٹھہر لیں نا، اس طرح آپ کو آسانی رہے گی، پلیز مان جائیں نا۔۔ میں اکیلی نہیں ہوتی ہوں، بی بی جان بھی ہوتی ہیں اس لیے اب تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔ ‘ اُس نے اُسے مناتے ہوئے کہا۔
’ اوکے رات کو دیکھوں گا۔ ‘
’ نو۔۔ ۔ نو۔۔ ابھی اُٹھیں پہلے ہم ہوٹل چلیں گے وہاں سے آپ اپنا سامان لیں گے اور پھر ساتھ ہی گھر چلیں گے۔ ‘
’ قسم سے بہت ضدی ہو تم، مجھے لگتا تھا کہ ضد صرف میرے خون میں شامل ہے۔ ‘ اُس نے اُٹھتے ہوئے کہا تو وہ کھلکھلا کے ہنس دی۔
’ ضد بھی تو اُن سے ہی کی جاتی ہے نا شاہ جی، جن پہ مان ہوتا ہے کہ وہ ہماری ضد پوری کر سکتے ہیں۔ ‘
اور اُس کے مان پہ خوبصورت سی مُسکراہٹ اُس کے لبوں کو چھو گئی۔
٭٭
زُلیخا نے حیات ولا کا آہنی مضبوط گیٹ پار کر کے اندر قدم رکھا اور بڑا سا صحن عبور کر کے جب وہ بر آمدے میں پہنچی تو اُس نے نازیہ کو سیڑھیوں کی طرف جاتے دیکھا تو بولی۔
’ اسلام علیکم تائی امی!‘
اُس کے سلام پہ نازیہ مڑ کے مُسکراتے ہوئے اُسے دیکھ کے بولیں۔
’وعلیکم اسلام، جیتی رہو۔ ‘
اُس نے پریشانی سے کہا۔
’ تائی امی آپ اوپر کیوں جا رہی ہیں، آپ کے گھٹنوں میں پہلے ہی درد رہتا، مجھے بتائیں کیا کام ہے میں کر دیتی ہوں۔ ‘
نازیہ اُس سے کہنے لگیں۔
’یوسف رات سے بُخار میں تپ رہا، اُس کے لیے کھچڑی لے کے جا رہی تھی، جا میری دھی یہ کھچڑی لے جا، جب یہ کھا لے تو اپنی نگرانی میں دوا بھی کھلا دینا، یہ یوسف بھی نا ذرا نہیں بدلا ابھی بھی بچپن کی طرح دوا سے دور بھاگتا ہے۔ ‘
وہ دھیرے سے مُسکراتے ہوئے اُن کے ہاتھ سے پلیٹ تھام کے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر یوسف کے کمرے کی طرف آ گئی۔ اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹا یا، یوسف نے دروازہ کھولا اور سامنے زُلیخا کو کھڑے دیکھ کے مُسکرا دیا دل نشینی سے۔ اُس نے سائیڈ پہ ہو کے اُسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ وہ اندر داخل ہو کے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ پلیٹ رکھتے پلٹی ہی تھی کہ یوسف کو اپنی طرف دیکھتا پا کے حیا سے اُس کی پلکیں لرزنے لگیں۔ اُسے شہر سے آئے تین دن ہو گئے تھے اور زُلیخا آج ملنے آئی تھی اس لیے اُس نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے طنزیہ کہا۔
’ آج وقت مل گیا جناب کو آنے کا۔ ‘
’ تائی امی کہہ رہی تھیں یہ کھچڑی کھا لیں اور پھر میں اپنی نگرانی میں آپ کو دوا کھلا کے پھر آؤں۔ ‘
اُس نے اُس کی بات نظر انداز کرتے نازیہ کا پیغام اُس تک پہنچایا۔ یوسف نے اُس کا ہاتھ تھام کے اپنے ساتھ بیڈ پہ بٹھایا اور پلیٹ پکڑ کے اُس کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولا’دوا کیا زہر بھی کھا لوں گا پر شرط یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کھلاؤ۔ ‘
’کوئی آ جائے گا یوسف۔ ‘ اُس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
’ آنے دو۔ زُلیخا یوسف کی تیمارداری نہیں کرے گی تو پھر کون کرے گا؟‘ آنکھوں میں شرارت لیے کہا۔
زُلیخا نے چمچ میں کچھڑی لیتے ہوئے اُس کے منہ میں ڈال دیا۔ یوسف کی باتیں کرتی شوخ آنکھیں زُلیخا کے چہرے پہ دھنک رنگ بکھیرنے لگیں۔
اور کمرے کے باہر دروازے کی اوٹ میں کھڑے وجود کے چہرے پہ اس منظر نے حسد اور جلن کے رنگ بکھیر دئیے تھے۔ وہ خاموشی کے ساتھ واپس پلٹ گئی۔
٭٭
میں نے سوچوں میں تراشے ہیں خدو خال تیرے
میرے بارے میں بتا تو نے بھی سوچا ہے کبھی؟؟؟
شام کے وقت ہوسٹل کی وارڈن نے اُس کے گھر سے کسی کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی وزیٹنگ روم کی طرف آئی تھی۔ جب اُس نے وزیٹنگ روم میں قدم رکھا۔ اُسے ایک تو پہلے ہی بھاگ کے آنے کی وجہ سے سانس چڑھا ہوا تھا اور اوپر سے سامنے بیٹھے احسن کو دیکھ کے کمبخت دل اور زوروں سے دھڑکنے لگا۔ جیسے ابھی سینہ چیر کے باہر آ جائے گا۔ تو اُسے دیکھتے ہوئے احسن نے شوخ لہجے میں کہا۔
’جیہ۔۔ ! بیٹھ جاؤ اس سے پہلے کہ تم زمین بوس ہو جاؤ۔ ‘
وہ فوراً شرمندہ ہوتے اُس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی۔
احسن نے ٹیبل سے جگ اُٹھا کے گلاس میں پانی انڈیل کے لبوں پہ دھیمی مُسکراہٹ سجائے اُس کی طرف بڑھادیا۔ وجیہہ نے گلاس تھام کے ہونٹوں سے لگا تے ہوئے ایک سانس میں خالی کر کے ٹیبل پہ رکھا۔ پھر ذرا ریلیکس ہوئی۔ لو اب ہو گئی نان سٹاپ بولنا شروع۔۔ ۔
’کل بابا جان نے فون کیا تھا کہ بھیجوں خان چچا کو مجھے لینے کے لیے۔ دل تو میرا بہت کر رہا تھا گاؤں جانے کا۔ مجھے سب بہت یاد آ رہے تھے لیکن کل میرا ضروری ٹیسٹ ہے اس لیے میں نے انکار کر دیا۔ اور اب صبح سے میں منہ لٹکائے بیٹھی ہوئی تھی کہ وارڈن نے جب مجھے اطلاع دی تمہارے گھر سے کوئی آیا ہے، میں سمجھی لالہ آیا ہو گا، اس لیے بھاگتی ہوئی آئی۔ ‘
’ہاں مجھے پتہ تمہیں بھاگنے کی ویسے ہی بیماری ہے۔ ‘ احسن نے کن اکھیوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
حیا سے اُس کی گھنی پلکیں لرزنے لگیں۔
اُسے یاد آیا بچپن میں جب بھی وہ احسن کو آتا دیکھتی توکیسے اُدھر سے بھاگ جایا کرتی تھی۔ پیچھے سے اُسے احسن کا چھت پھاڑ قہقہہ سُنائی دیا کرتا۔
’امی جان، بابا جان، لالہ، تائی جان، تایا جان، مریم اور زُلیخا سب ٹھیک ہیں ؟‘
اُس نے گھر والوں کی خیریت دریافت کی۔
’ہاں، الحمدُ للہ سب ٹھیک ہیں۔ یہ تمہارے لیے۔ ‘
وہ جیب سے ایک چھوٹا سا پیک ہوا گفٹ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ اُس نے لیتے ہوئے اُسے کھولا۔ اُس میں ڈائمنڈ سٹون والا نیکلس چمک رہا تھا جس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ وہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
’ماشاء اللہ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔ ‘
’تم سے زیادہ نہیں۔ ‘
’شُکریہ۔ ‘
’مائی پلیئیر! اپنا خیال رکھنا۔ مجھے ضروری کام سے جانا ہے اس لیے اور نہیں رُک سکتا۔ ‘
وہ اُٹھتے ہوئے بولا۔ وہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ الوداعی مُسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھاتو وہ جواباً وہ سر کو خم دیتے ہوئے چلا گیا۔ ہزاروں سپنے پلکوں پہ سجائے وہ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
٭٭
ُلگتی تلخ باتوں سے بڑے بے درد ہاتھوں سے
لو دیکھو ہار دی تم نے محبت مار دی تم نے
وہ شاہ ویز کے ساتھ اپنے فلیٹ میں آئی۔ اُس نے دیکھا تو دروازہ لاک تھا۔ اس کا مطلب بی بی جان باہر گئی ہوئی ہیں۔ اُس نے اپنے ہینڈ بیگ سے کیز نکالیں اور دروازہ کھولا۔ اور شاہ ویز نے انوشے کے ساتھ ابھی اُن کے خوبصورت فلیٹ میں قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے دیوارپہ لگی تصویر نے اُسے اپنی جگہ پہ ہی پتھر کر دیا تھا۔ وہ حیرت سے بنا پلکیں جھپکائے یک ٹک اُس تصویر کو تکے جا رہا تھا۔
’شاہ کیا ہوا ہے ؟‘
اُس کے چہرے سے اس وقت اُس کے درد کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا تھا۔ اس لیے انوشے نے پریشان ہوتے ہوئے اُس کے بازو پہ ہاتھ رکھتے پوچھا۔ تو وہ جیسے ہوش میں آیا۔ تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُس نے پوچھا تھا۔
’یہ کون ہیں ؟‘
’یہ میرے مام ڈیڈ ہیں۔ ‘
’تو پھر وہ کون تھے جن کی تصویر تم نے مجھے سینڈ کی تھی؟‘ اُس نے شاک سے پوچھا۔
’وہ میرے رئیل ڈیڈ ہیں، اُن کی ڈیتھ کے بعد مام نے ان سے شادی کر لی، میرے یہ ڈیڈ بھی بہت اچھے ہیں۔ مجھے اشعر اور ہالے سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔
‘اُس نے اپنے طور پہ اُسے معلومات فراہم کی تھیں لیکن اگلے ہی پل شاہ ویز نے اُسے بازو سے پکڑ کے بے دردی سے دھکیلتے دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’ اس شخص نے پہلے میری ماں کو مارا تھا اور اب مجھے مروانے کے لیے بہت خوبصورتی سے اُس نے تمہارا استعمال کیا ہے۔ ‘
اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے اُس نے بے یقینی سے اُس کی آنکھوں میں چھائی وحشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’ میرا بازو چھوڑیں شاہ۔۔ ! پاگل ہو گئے ہیں آپ کیا کہے جا رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ‘
اور اگلے ہی لمحے شاہ ویز کے ہاتھ نے اُس کے نازک سے گال پہ اپنا نقش چھوڑ دیا۔ درد کے مارے آنسو بہہ نکلے۔ آج تک اُس کے ماں باپ نے اُسے پھولوں کی چھڑی سے بھی نہیں چھوا تھا۔
’زبان بند رکھو اپنی۔ ایک لفظ بھی نہیں۔ جو تم نے میرے ساتھ کیا اس کی سزا تمہیں بھُگتی پڑے گی اور اپنے باپ سے کہہ دینا ضروری نہیں کہ ہر دفعہ آپ کا کھیل کامیاب ہو اس دفعہ مقابل شاہ ویز حیات خان ہے۔ ‘
اُس نے یہ کہتے ہوئے اُسے ایک طرف دھکیلا۔ صوفے کی نوک سے اُس کا سر ٹکرایا تھا۔ اُسی وقت اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ زمیں بوس ہو گئی۔ شاہ ویز نے اُسے نظر انداز کرتے ہوئے ٹیبل پہ پڑا ڈیکوریشن پیس اُٹھا کے دیوار پہ لگی تصویر پہ دے مارا۔ اُس کا شیشہ چکنہ چور ہوتے زمیں پہ بکھر گیا۔ وہ اپنا بیگ گھسیٹتے ہوئے فلیٹ سے باہر نکل آیا۔
٭٭
کتنی گھائل تیری چاہت میں میری ذات ہوئی
جیت اُس کی ہوئی اور مجھے مات ہوئی مات ہوئی
وہ اُدھر سے نکلا اور ٹیکسی لے کے بُرج خلیفہ آ گیا۔ ایک نسبتاً سُنسان گوشے میں بیٹھ کے نظریں سامنے سمندر کے پانی پہ مرکوز کر دیں۔ اور خود کو کئی سال پیچھے لے گیا۔
اُس نے ہوش سنبھالتے خود کو اپنی شفیق اور مہربان بی بی جان اور آغا جان کے سایہ شفقت تلے پایا۔ یہ ہی اُس کے لیے ماں اور باپ تھے۔ شعور کی منزل پہ پہنچتے ہی اُس کے کانوں نے اپنے باپ کی داستان سُن لی تھی کہ اُس کے باپ نے اُس کی ماں کے کردار پہ شک کرتے ہوئے دودھ کے گلاس میں زہر گھول کے پلا دیا تھا۔ اُس کے بعد اُس کے باپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گاؤں بدر کر دیا گیا۔ پھر اکثر وہ تنہائی میں رات کے اندھیرے میں اپنی ماں کو یاد کر کے دھاڑیں مار مار کے روتا تھا۔ گھنٹوں اپنی ماں کی قبر پہ جا کے بیٹھا رہتا۔ جب اُسے پھر بھی چین نہ ملتا تو وہ اپنے تایا جان جو عرصہ پہلے نجانے کس وجہ سے گاؤں چھوڑ کے شہر جا بسے تھے اُن کے پاس چلا جاتا اور اُن کے کشادہ سینے سے لگ کے وہ ہمیشہ پُر سکون ہو جایا کرتا تھا۔ وہ اُسے ہمیشہ بی بی جان اور آغا جان کا خیال رکھنے کا کہا کرتے تو وہ جواب میں اُن کو گاؤں واپس آنے کا کہا کرتا لیکن وہ اُسے ٹال دیا کرتے۔ وہ اُسے اُس کی ماں کی اور اپنی بچپن کی باتیں سُنایا کرتے تو وہ بہل جاتا۔ وہ بچپن سے ہی سنجیدہ مزاج کا تھا۔ غصہ ہر وقت اُس کی ناک پہ دھرا رہتا اُس نے اپنے گرد تنہائی کا ایک خول بنا لیا تھا۔ گاؤں کی کئی لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا تھا۔ اسی طرح یونیورسٹی میں بھی کئی لڑکیاں اُس کی پرسنلٹی پہ مر مٹی تھیں۔ لیکن وہ انجان بنا رہتا۔ ایک دن اُسے بی بی جان نے بتایا کہ اُس کی نسبت بچپن سے آغا جان کے دوست کے بیٹے کی بیٹی نور بانو سے طے ہے۔ کئی سال گُزرنے کے باوجود وہ اپنے دل میں نور بانو کے لیے کوئی احساس پیدا نہیں کر سکا تھا۔ جب سے اُسے بی بی جان نے بتایا تھا تب سے نور بانو کو دیکھتے ہی اُسے نجانے کیوں غصہ آتا تھا۔ ایک دو دفعہ کسی فنکشن پہ نور بانو نے اُسے مُخا طب کرنے کی کوشش کی لیکن اُس نے اُسے ڈانٹ کے رکھ دیا۔ اُس کے بعد وہ ڈرتے کبھی اُس کے سامنے ہی نہیں آئی تھی۔ پھر ایک دن اُسے انوشے کی ریکوئسٹ اور میسیج ملے جس میں اُس نے ریکوئسٹ ایکسیپٹ کرنے کی درخواست کی تھی۔ اُس نے ایکسیپٹ کر لی اور پھر اُس کے ڈھیر سارے میسیج اُسے ملنے لگے وہ اگنور کرتا، غصہ کرتا۔۔ لیکن وہ جب پھر بھی ڈھیٹ بن کے میسیج کرتی رہتی تو اُسے سمجھاتا، وہ کچھ نہ سمجھتی اُلٹا اُسے کہتی آپ دو منٹ مجھ سے پیار سے بات کر لیں گے تو آپ کا کیا جائے گا۔ وہ زچ ہو جایا کرتا۔ یوں ہی وقت گُزرتا رہا۔ اُس کے لیے اُس کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو چُکا تھا۔ اس لیے جب اُنوشے نے اُسے دُبئی آنے کے لیے کہا تو وہ انکار نہ کر سکا۔ وہ بھول گیا کہ اُس کی کسی نور بانو سے نسبت طے ہے۔ جاتے وقت وہ اُس کا فیورٹ کلر زیب تن کرنا نہیں بھولا تھا۔ اور پھرفرشتوں جیسا معصوم سا اُس کا چہرہ دیکھتے ہی اُس نے اپنے دل کے دروازے اُس کے لیے کھول دئیے تھے۔ وہ اُس سے بارہ سال چھوٹی ہونے کے باوجود اُس کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ پھر وہ اُس کے کہنے پہ ایک ہفتے کے لیے رُک گیا۔ یہ ایک ہفتہ اُس کے لیے بہت خاص تھا وہ جان بوجھ کے اُسے تنگ کرتا اور جواباً جب وہ مصنوعی غصہ اپنے چہرے پہ سجایا کرتی تو وہ اُس کی اس ادا پہ نہال ہو جایا کرتا۔
اُس نے خود کو پہلی دفعہ زندگی میں اتنا خوش محسوس کیا تھا۔ لیکن اُس کی خوشیوں کو ان دیکھی نظر لگ گئی۔ اُسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ خوشیوں کا تو ہمیشہ سے اُس کے پاس قلل رہا پھر بھی اُسے راس کیوں نہیں آئیں ؟ اور پھر انوشے کے گھر اپنے باپ کی تصویر اُس کی دوسری بیوی کے ساتھ لگی دیکھ کے اُس کے اندر کا سارا درد اُس کے چہرے پہ پھیل آیا تھا۔ اُس کا باپ جو اُس کی ماں کا قاتل تھا دوسرے کو سولی پہ لٹکا کے خود اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گُزار رہا تھا۔ جسے یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اُس کا کوئی شاہ ویز نامی بیٹا بھی ہے۔ وہ انوشے پہ ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہتا تھا لیکن وہ خود پہ کنٹرول نہیں کر سکا تھا۔ اُسے یہ بات ہی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اپنے سے بارہ سال چھوٹی لڑکی کے ہاتھوں بہت خوبصورتی سے پاگل بن چُکا ہے۔ اُس کی خوبصورت براؤن پلکوں سے دو موتی ٹوٹ کے اُس کی قمیض میں جذب ہو گئے تھے۔
اگریہ جاننا چاہو
کوئی کیسے بکھرتا ہے
تو میرے پاس آ جانا
میرا دیدار کر لینا
خبریہ ہو ہی جائے گی
کوئی کیسے بکھرتا ہے
وہ اٹھائیس سالہ جواں مرد آج ٹوٹ گیا تھا۔ وہ اپنی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو روک نہیں پا رہا تھا۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُس کے دل پہ بے دردی سے وار کیا ہو۔ رات گُزرتی رہی وہ ٹوٹتا رہا۔ آخر صبح نے اپنے پر پھیلا ہی دئیے۔ وہ اُٹھا اپنا بیگ اُٹھایا اور ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔
٭٭
ہوا توکچھ بھی نہیں بس اپنا آپ گنوایا ہے
آنکھوں کو برسنا سکھایا ہے محبتوں کا صلہ پایا ہے
وہ گاؤں جانے کی بجائے شہر اپنے تایا جان کے پاس آ گیا۔ اور پھر اُن کے سینے سے لگ کے آنسوؤں کے درمیان اُس نے اپنا ہر درد کہہ ڈالا۔ اُنہوں نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’ گڑھے کے اندر پتھر پھینکیں تو اس کے پانی میں ایک ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر سمندر کے اندر ایک پہاڑ ڈال دیجئیے تب بھی وہ ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔ اسی طرح چھوٹے ظرف والا آدمی ایک سخت بات سُن کے بگڑ اُٹھتا ہے۔ مگر بڑے ظرف والے آدمی کے اوپر طوفان گُزر جاتے ہیں اور پھر بھی اُس کا سکون برہم نہیں ہوتا۔ ‘
اُنہوں نے اُسے احساس دلائے بغیر ایک بہت بڑی بات اُسے سمجھا دی تھی۔ وہ بھی سمجھ گیا کہ اُنہوں نے غصہ میں قابو سے باہر ہوتے اور انوشے پہ ہاتھ اُٹھانے پہ اُسے یہ بات کہی ہے۔ اُسے خاموش دیکھ کے وہ پھر بولے۔
’شاہ ویز اللہ سے اپنے لیے زیادہ سی دُعا مانگا کرو۔ اللہ تمہیں سکون دے دے گا۔ ‘
’تایا جان میرا نہیں دل کرتا دُعا مانگنے کا۔ ‘
’نہ میری جان !دُعا ضرور مانگنی چاہئیے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس سے ناراض رہتے ہیں۔ ‘ اور ویسے بھی دُعا تو روح اور آرزو کی ہم آہنگی کا نام ہے، دینے اور لینے والے کے مابین ایک ایسے لمحے کی تخلیق کا پیش لفظ ہے۔ جس میں خواہشوں کی تکمیل موجزن رہتی ہے۔ دُعا نہ مانگنے والے ہاتھ ریگستان کی طرح خالی رہتے ہیں جن پر پانی کی ایک بوند برسائے بغیر بادل تیزی سے گُزر جاتے ہیں۔ ‘ اُنہوں نے اُسے قائل کرتے ہوئے دُعا کی اہمیت بتائی۔
’ اب مانگا کروں گا۔ ‘ ہمیشہ کی طرح اُن کی بات مانتے ہوئے اُس نے کہا۔
’شاہ ویز۔۔ سنبھالو خود کو، تم میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور میرے دل کا قرار۔۔ پتر تمہیں اس حال میں دیکھ کے میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ خُدا میرے حصے کی خوشیاں بھی تیری جھولی میں ڈال دے۔ خُدا میری زندگی بھی تمہیں لگا دے۔ ‘
اُنہوں نے ابھی کہا ہی تھا کہ وہ تڑپ کے اُن کی گود سے سر اُٹھاتے ہوئے دونوں ہاتھوں میں اُن کا چہرہ تھامتے بولا۔
’کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ تایا جان؟ اللہ آپ کو لمبی اور صحت والی زندگی دیں۔ آپ کو اللہ نہ کرے اگر کچھ ہوا تو میں کہاں زندہ رہ پاؤں گا۔ ‘
اُنہوں نے اُسے اپنے سینے میں بھیچ لیا۔ دونوں کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کے بکھرنے لگے۔
٭٭
جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو کسی کی آرزو کر بیٹھتے ہیں۔ اپنی خوبصورت زندگی کے خوبصورت لمحات اُس کی چاہت پہ قربان کر دیتے ہیں۔ روح کی گہرائیوں تک اُس کی پوجا کرتے ہیں۔ مگر یہ نہیں جانتے بھلا آرزو بھی کبھی پوری ہوئی ہے۔ ساری رات جاگ کے آنکھوں میں کاٹ کے اگلے دن وہ یونیورسٹی چلی آئی۔ ابھی وہ پارکنگ ایریا سے گُزر رہی تھی کہ اُس نے سکندر کوبھی اپنی کار سے نکلتے ہوئے دیکھا تو وہ اُس کے پاس چلی آئی۔
’ ایکسکیوز می! یہ آپ کی ڈائری کل آپ کے بیگ سے گر گئی تھی۔ میں یہ واپس کرنے کے لیے آپ کے پیچھے بھی آئی تھی لیکن آپ تب تک جا چُکے تھے۔ ‘
اُس نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے اپنے بیگ سے اُس کی ڈائری اُس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
سکندر اپنی اتنی بڑی غلطی پہ خود کو سرزنش کرتے ڈائری اُس سے لیتے ہوئے بولا۔
’ شُکریہ ! یہ میرے لیے بہت قیمتی ہے اور مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ مجھ سے کھو گئی ہے۔ ‘ تو اُس نے بس مُسکرانے پہ اکتفا کیا اور کلاس کی طرف چل دی۔
سکندر کو شرمندگی کے احساس نے گھیر لیا۔ وہ یونیورسٹی کے پہلے دن سے ہی اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت کا واضح پیغام دیکھتے آیا تھا۔ اور اب اُس کی حالت دیکھ کے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ اُس نے یہ ڈائری پڑھی ہے وہ اُدھر ہی پارکنگ ایریا میں کھڑے آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے دل میں اللہ سے مُخاطب ہوا۔۔ ۔
’ اے اللہ کسی کی تکلیف کی وجہ میری ذات نہ بنا نا۔۔ پلیز اللہ اُس کے دل سے میری محبت نکال کے اُسے سکون عطا کر دے اور اُس کی زندگی میں مجھ سے بہتر ساتھی شامل کر دے جس کے دل میں اُس کے لیے بے پناہ محبت ہو۔۔ پلیز اللہ میری دُعا ضرور قبول کرنا۔ ‘
اللہ سے اپنے دل کی بات کہہ کے وہ بھی کلاس روم کی طرف چل دیا۔
٭٭
رمیز شہباز ولا کی چھت پہ کھڑا تھا کہ اُس نے زُلیخا کو حیات ولا سے نکلتے دیکھا تو اُس کے تن بدن میں حسد کی آگ لگ گئی۔ زُلیخا کو آتے دیکھ کے نازیہ نے اُسے آواز دی۔
’ زُلیخا۔۔ ؟‘
بر آمدے میں بچھے تخت پہ اُن کو بیٹھے دیکھ کے وہ اُن کی طرف آتے ہوئے بولی۔
’جی امی؟۔ ‘
’ جاؤ ذرا دھوپ میں یہ کپڑے ڈال آؤ۔ ‘
اُنہوں نے صحن میں رکھی بالٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ تا بعد اری سے سر ہلاتے بالٹی اُٹھا کے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آ گئی۔ وہ اپنے دھیان میں تاروں پہ کپڑے پھیلانے لگی۔
’زُلیخا۔۔ ۔۔ !‘
اپنا نام پُکارے جانے پہ وہ پلٹی۔ اور اپنے پیچھے رمیز کو کھڑے دیکھ کے اُس کا دل کانپا تھا۔ نجانے اُس کی آنکھوں میں ایسا کیا ہوتا تھا کہ اُسے اُس کی طرف دیکھ کے ہی خوف محسوس ہوتا۔
’جی۔۔ ؟‘
’ تمہارے چکر حیات ولا کچھ زیادہ نہیں لگنے لگے ؟‘
’ آپ کو حیات ولا سے کوئی خاص مسئلہ ہے کیا؟‘
’ جو بھی ہے۔ زُلیخا نام رکھنے سے یوسف نہیں ملا کرتا۔ یہ بات ذہن میں بٹھا لو تو تمہارے لیے اچھا ہے۔ اب تم مجھے حیات ولا کے گرد منڈلاتی نظر نہ آؤ۔ ‘
وہ عجیب سی نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ اور وہ اُس کی باتوں پہ جھر جھری لے کے رہ گئی۔ اُس کے دل سے صدا نکلی۔
’اے اللہ اگر یوسف زُلیخا کو نہ ملا تو وہ جیتے جی مر جائے گی۔ ‘
٭٭
وہ ہسپتال کے بیڈ پہ لیٹے خالی نظروں سے چھت کو تکے جا رہی تھی۔ وہ دو دن کے بعد ہوش میں آئی تھی۔ سر پہ لگنے والی چوٹ شدید تھی، لیکن اُس سے شدید وہ چوٹ تھی جو روح کو لگی تھی۔ یہ گھاؤ تو کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن روح کا گھاؤ نجانے کبھی ٹھیک بھی ہو پائے گا یا نہیں۔ وہ اپنی سوچوں میں گُم تھی کہ کسی نے اُس کے بہتے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں پہ چُن لیا تو اُس نے اپنے پاس بیٹھے وجود کی طرف دیکھا۔ اُس کو اپنی طرف تکتا پا کے اُنہوں نے اُس کے سُنہری بالوں میں دھیرے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔
’انوشے۔۔ ! بیٹے اُس دن کیا ہوا تھا؟ کس نے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور میرے بیٹے کا یہ حال کیا تھا؟‘
آہ۔۔ ۔ کیا پوچھ لیا تھا اُنہوں نے۔ وہ منظر پھر اُس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ اُسے ایسے لگا جیسے کسی نے آری سے اُس کے دل پہ وار کیا ہو۔ اُس کا دل کر رہا تھا وہ سب سے دور کسی صحرا یا دشت میں چلی جائے۔ جدھر وہ دل کھول کے روئے تو کوئی اُسے رونے پہ چُپ نہ کروائے۔
’ڈونٹ ناؤ ڈیڈ۔۔ ! کوئی نان مُسلم لگ رہا تھا۔ جو فُل نشے میں تھا۔ جب میں فلیٹ کا لاک کھول کے اندر داخل ہونے لگی تو وہ بھی نجانے کہاں سے میرے پیچھے آ گیا۔ میں نے روکنے کی کوشش کی تو اُس نے مجھے اندر گھسیٹ کے دھکا دیا میرا سر صوفہ کی نوک سے جا ٹکرایا۔ اُس کے بعد میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ ‘
وہ سچ بتانا چاہتی تھی۔ لیکن نجانے کیوں وہ بتا نہیں پائی تھی۔ اور اتنا کہنے کے بعد وہ اُن کے ساتھ لگ کے سسکیاں لے لے کے روئی۔
’ ڈیڈ۔۔ ! مجھے بہت ڈر لگتا، آئندہ آپ مجھے چھوڑ کے کہیں نہ جائیے گا۔ ‘
’کبھی نہیں جاؤں گا۔ ‘
٭٭
دُشمن کے مٹانے سے مٹاہوں، نہ مٹوں گا
ایسا تو نہ ہو گا کہ نہ پہنچوں تیرے در تک
شاہ ویز کی جیپ گاؤں کے کچے راستے پہ فراٹے بڑھتی جا رہی تھی۔ اُسے شہر سے واپس آتے کافی رات ہو گئی تھی۔ بی بی جان اُس کے رات کے وقت باہر رہنے پہ پریشان ہو جایا کرتی ہیں اور جب تک وہ گھر نہیں پہنچ جاتا تھا۔ تب تک بی بی جان بر آمدے میں بیٹھ کے اُس کی سلامتی کے لیے ورد کرتی رہتیں۔ اس لیے وہ فُل سپیڈ سے ڈرائیونگ کر رہا تھا کہ اچانک اُس کی جیپ جھٹکا کھا کے رُک گئی۔ وہ جیپ سے ابھی اُترا ہی تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں سے کسی نے پستول کا رُخ اُس کی طرف کر کے نشانہ باندھتے ہوئے ٹریگر دبادیا۔ فضا میں گولی چلنے کی آواز گونجی۔ درختوں کی شاخوں پہ اپنے گھونسلوں کے اندر پرندوں نے سہم کے اپنے بچوں کو اپنے پروں تلے چھُپا لیا۔
٭٭٭