دئیے جلنے لگے
ہاں مجھے یاد ہے
دسمبر کے وہ حسیں دن
میں جب اُس کے پاس ہوتی تھی
تو اُس کی شوخ آنکھوں میں
جلتے تھے دئیے محبتوں کے
اُن جلتے دئیوں میں
میرا دل ڈوبنے لگتا
میری مدھم سی چلتی سانسیں
اُس کی گرم سانسوں میں
مدغم ہونے لگتیں۔۔ ۔
سنگ میرے ہزاروں
خواہشوں کی تتلیاں
رقص کرنے لگتیں۔۔ ۔
نیلے امبر سے
زمیں کی دھرتی پر
جیسے پھولوں کی
آبشاریں بہنے لگتیں۔۔ ۔
محبتوں کو امر کرنے کا
جویہ سُہانا موسم آیا تھا
پلک جھپکتے ہی جیسے بیت گیا
نفرتوں کی آندھیاں چلنے لگیں
سانسیں میری، تھمنے لگیں۔۔ ۔
محبتوں کے دئیے بُجھنے لگے۔۔
مجھ سے جُدا وہ ہو گیا
میں تو جیسے مرنے لگی۔۔ ۔
صدیوں سے بھی لمبی راتیں
کاٹے نہ مجھ سے کٹیں۔۔
دُکھ، آنسو، اور تنہائی
کا ساتھ ہوا مسلسل۔۔
یوں پھر ایک شب
چاند کی چاندنی میں
میری آنکھ میں
اک چھوٹا سا،
اُمید کا دیا، روشن ہوا
شاید وصل کی یہ
گھڑیاں بیت جائیں
شایدلوٹ آئے وہ دُشمن جاں
شاید مجھے اپنے سامنے پا کر
پھر اُس کی شوخ آنکھوں میں
محبتوں کے دئیے جلنے لگیں
شاید۔۔ ۔۔ !
جلنے لگیں محبتوں کے دئیے
٭٭٭