وہ صبح کافی حبث زدہ سی تھی ۔۔۔بادلوں نے سورج کو ڈھک رکھا تھا ۔۔آج کا دن کافی گرم ثابت ہونا تھا ۔۔۔ایسے میں اگر سمار صاب کے بنگلے میں جھانک کے دیکھو تو وہ زینوں سے اترتی دیکھائی دیتی تھی ۔۔۔۔ڈوپٹہ جو نماز کے لیے سر پر لپیٹ رکھا تھا اب ڈھیلا ہو کے گردن کے گرد لپٹا تھا ۔۔۔۔۔ بال اوپر کر کے کیچر میں باندھ رکھے تھے ۔۔ہلکے گلابی رنگ کے قمیص شوار میں وہ فریش سی کچن کی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔جہاں سے آتی کھٹ کھٹ کی آواز سے اندازا ہو رہا تھا کے پیارے میاں جاگ چکے ہیں ۔۔۔
"اسلام علیکم پیارے میاں صبح بحیر" ۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی انکے پیچھے آرکی. ۔۔۔
"وعلیکم اسلام صبح بحیر "۔۔ پیارے میاں جو چائے کے لیے پانی چڑھا چکے تھے اسکی آواز سن کر پلٹے۔۔۔" اٹھ گئی تم "۔۔۔۔مسکرا کے اس سے پوچھا ۔۔۔
"آف کورس میں زیادہ دیر نہیں سو سکتی" ۔۔۔۔وہ فریج سے دادو کے لیے بریڈ نکالتے ہوئے مصروف سی بولی ۔۔۔
"مجھے لگا رات کو دیر سے سوئی تھی تو نہیں اٹھو گی بڑی بی بی کو ناشتہ میں بنا دیتا ہوں ۔۔۔"
"ارے نہیں دادو صرف میرے ہاتھ کا ناشتہ پسند فرماتی ہیں" ۔۔۔۔اترا کے بولی ۔۔۔پھر چونک کے سیدھی ہوئی ۔۔۔۔اور آپ کو کیسے پتہ میں دیر سے سوئی تھی ۔۔آپ تو کل جلدی چلے گئے تھے سونے "۔۔۔وہ آنکھوں میں حیرت لیے تشویش سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔پیارے میاں مبہم سا مسکرائے ۔۔۔
"برسوں سے یہاں کام کر رہا ہوں بیٹا ۔۔۔۔کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب رات کو ایک آدھ بار کچن میں چکر نہ لگاؤں ۔۔۔عادت سے مجبور جب کل آیا تو میں نے دیکھا تھا تمہیں کھانا لے کے جاتے ہوئے بہو بیگم کے کمرے میں" ۔۔۔۔پیارے میاں نے بات مکلمل کر کے اسے دیکھا وہ بریڈ ٹوسٹر میں ڈال کے اب دادو کی اسپیشل کشمیری چائے کے لیے پانی چڑھا رہی تھی ۔۔۔انکی بات سن کے وہ مسکرائی ۔۔۔
"ایکچلی شہرین اور ناہل کے جھگڑے کی وجہ سے کسی نے کھانا نہیں کھایا تھا ہمارا تو خیر جوان خون ہے مگر پھپھو اور پھپھا کو دواہیاں لینی ہوتی ہیں ۔۔۔اسلیے انکا بھوکے پیٹ سو جانا بہتر نہیں تھا ۔۔۔سو میں نے انہیں کھانا ڈال کے دے دیا۔۔۔کوئی انوکھا کام تو نہیں کیا "۔۔۔اسنے شرارت سے بول کے شانے سادگی سے شانے اچکائے ۔۔ اورٹوسٹر سے بریڈ نکال کر پلیٹ میں رکھی تھی ۔۔۔
پیارے میاں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ۔۔۔۔اسکی قریب آکے اسکا سر تھپکا ۔۔"ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔اس جہاں کی لگتی ہی نہیں ہو ۔۔۔۔ناجانے کیسے آ گئی یہاں"۔۔۔۔وہ خوبصورتی سے مسکرائی سبز آنکھیں کانچ کے مانند چمکنے لگیں ۔۔۔پیارے میاں کا سر پے رکھا ہاتھ اٹھا کے دونوں ہاتھوں میں تھاما ۔۔۔"اب اتنی بھی کوئی اچھی نہیں ہوں میں ۔۔۔صرف دادو کے لیے ناشتہ بنا رہی ہوں میرا ناشتہ آپ کو ہی بنانا پڑے گا۔۔۔۔آپ کی ان باتوں میں نہیں آنے والی میں ۔۔۔۔رعب سے گردن اکڑا کر کہا" ۔۔۔انکا ہاتھ چھوڑا ۔۔اور مسکراہٹ دباتی چائے کی جانب مڑی( باقی سارے مثالحے ابانلتے پانی میں ڈالے )۔۔۔۔پیارے میاں تو سن ہی رہ گئے تھے ۔۔۔وہ تو جواب میں کچھ اچھا سننے کے منتظر تھے انہیں کیا سننے کو ملا تھا ۔۔۔ساری ہمدردی پل بھر میں ہوا ہوئی ۔۔۔
"اسی جہاں کی ہو تم ۔۔۔۔لگ گیا پتہ مجھے"۔۔ جل کے کہتے وہ فریج سے آٹا نکالنے لگے ۔۔۔۔
"گڈ ۔۔۔ اگر سمجھ گئے ہیں تو "۔۔۔ویسے ہی اترا کے کہا چائے کپ میں ڈالی۔۔۔دونوں چیزیں بڑی ڈش میں سیٹ کیں ۔۔۔۔"میں جاگنگ سے آوں تو ناشتہ تیار ہونا چاہیے رعب سے حکم صادر کرتی وہ ڈش پکڑے دادو کے کمرے میں چل دی" ۔۔۔۔پیارے میاں نے بری نظروں سے اسکی پشت کو گھورا ۔۔۔پھرسر جھٹک کے مسکرائے ۔۔۔بڑی بی بی ٹھیک ہی کہتی ہیں ۔۔۔"ہیرا ہے یہ لڑکی "۔۔۔۔مسکرا کر آٹے کے پیڑے بنانے لگے ۔۔۔
وہ دادو کو ناشتہ کروانے کے بعد جاگنگ کے لیے نکل گئی ۔۔۔۔ایک گھنٹہ جاگنگ کے بعد وہ واپس آئی تو پھپو جاگ چکیں تھیں ۔۔۔اور ناشتہ میز پر لگا رہیں تھیں ۔۔۔سمار صاب سربراہی کرسی پر بیٹھے اخبار دیکھ رہے تھے ۔۔اس نے رک کے ان دونوں کو سلام کیا اور فریش ہونے کمرے میں گئی ۔۔۔فروا اور بسماء اسی طرح سو رہیں تھیں ۔۔۔۔ناہل کے کمرے کا دروازہ بھی بند تھا ۔۔۔شاید وہ بھی سو رہا تھا ۔۔۔اسنے سوتی ہوئی لڑکیوں کو دیکھ کے سر جھٹکا ۔۔۔۔اور پیلے رنگ کا ہلکا سا جوڑا بریف کیس سے نکال لینے کے بعد واش روم فریش ہونے چل دی ۔۔۔
فریش ہو کے جب وہ نیچے آئی تو سمنیہ اور سمار صاب میں بحث سی چھڑی تھی ۔۔۔وہ ماتھے پر بل ڈالے ایک کرسی کھنچ کر بیٹھ گئی ۔۔۔
"وہ لڑکی اتنا کچھ بول کے چلی گئی سمینہ اور آپ سب خاموش رہے" ۔۔۔۔سمار صاب سخت خفا لگتے تھے ۔۔۔
"میں کیا کہتی وہ کسی کو بولنے ہی نہیں دے رہی تھی "۔۔۔۔سمینہ نے جیسے اکتا کر کہا ۔۔۔۔
"میں نے کال کر لی ہے ناہید کو دس بجے تک وہ لوگ آجاہیں گے ۔۔۔۔تب تک اپنے نواب صاب کو اٹھاو ۔۔۔۔پہلے اسکی خبر لیتا ہوں ۔۔۔صاب زادے باہر سے پڑھ کر سارے اخلاقیات بھول گئے ہیں ۔۔۔میڈیا کے سامنے کیا ڈارمہ لگایا واہ،(انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کے اسے داد دی )"اور نحوت سے سر جھٹکا. ۔۔سمینہ بیھٹی آرام سے انکی جلی کٹی سن رہی تھیں۔۔۔سال میں انہیں ایک ہی بار غصہ آتا تھا وہ بھی شدید ۔۔۔ایسے میں سب خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتے تھے ۔۔۔
"پھوپھا پلیز آپ ہاہیپر نہ ہوں ۔۔۔۔نایاب مصلحتاً بیچ میں بول پڑی ۔۔۔۔ناہیدآنٹی اور شہرین کو آلینے دیں سب مل کر آرام سے بات کریں گئے "۔۔۔وہ نرم مسکراہٹ سے بول رہی تھی ۔۔۔۔اسکی بات پر سمار صاب نے تشکر سے اسے دیکھا غصہ یک دم کم ہوہا ۔۔۔
"تھینک یو بیٹا رات جو اگر آپ نہ ہوتیں تو نہ جانے وہ ڈارمہ کب تک چلتا ۔۔ایک نظر چائے پیتی سمینہ پر ڈالی ۔۔۔سمنیہ نے بتایا مجھے شہرین نے کافی انسلٹ کر دی تمہاری ۔۔۔اسکی طرف سے میں سوری بولتا ہوں "۔۔شرمندگی سے اسے دیکھتے وہ لجاجت سے بول رہے تھے ۔۔۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ۔۔۔رشتوں میں سوری تھنک یو جیسی کوئی بات نہیں ہوتی۔۔۔۔اور رہی بات شہرین کی تو وہ غصے میں تھی ۔۔۔میں نے اسکی بات کا برا نہیں منایا" ۔۔نایاب نے مسکرا کر انہیں کہا تو وہ بھی مسکرائے ۔۔۔
"کاش میرے بیٹے کی عقل نے کام کیا ہوتا ۔۔۔تو آج شہرین کی جگہ تم ہوتی میری ہونے والی بہو"۔۔۔پھپھا اتنی صاف گوئی سے بولے کے نوالہ اسکے گلے میں ہی اٹک گیا ۔۔۔آنکھیں پھاڑ کے خیرت سے انہیں دیکھا ۔۔۔۔وہ نفی میں سر ہلاتے آخری بچا ٹوسٹ کھا رہے تھے سخت افسوس میں لگتے تھے ۔۔۔۔۔نایاب نے سر جھٹکا اور جو نظر پھپھو پر پڑی تو ۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔اسنے کوفت سے آنکیھں گھماہیں۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔آنکھوں ہی میں انہیں باور کرانے لگی ۔۔۔تو انہوں لاپرواہی سے شانے اچکائے (میں نے کیا کہا )۔۔۔
نایاب نے جل کے منہ بنایا اور ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا تھا ۔۔۔وہ بے چاری بری پھنسی تھی ۔۔۔۔
****************************************
لاونچ کا ماحول شدید تناو سے بھرا تھا ۔۔۔شہرین اور ناہید آ چکیں تھیں ۔۔۔دونوں شرمندہ سی تھری سیڑ صوفے پر بیٹھی تھیں۔۔شہرین آج سادہ سے شلوار قمیص میں ملبوس تھی ۔۔۔میک بھی نہ ہونے کے برابر تھا ۔۔۔ناہید بھی سادی سی فل بلاوزر والی ساڑھی میں ملبوس تھیں۔۔۔۔بسماء اور فروا کے تو منہ ہی کھل گئے تھے ان دونوں کو دیکھ کے ۔۔۔۔بھلا یہ راتو رات کیسی کایا پلٹ تھی ۔۔۔۔فروا نے جھر جھری لی ۔۔۔۔
وہ سب لاونچ میں لگے صوفوں پر آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔۔۔ناہید بیگم نے گلا کھنگھارا تو سب انکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔
"میں بہت شرمندہ ہوں کل شہرین کے بی ہیویر کی وجہ سے ۔۔۔یہ بے وقوف ہے نادان ہے آپ پلیز اسے معاف کر دیں"۔۔۔۔وہ نہایت شرمندگی سے بول رہیں تھیں ۔۔۔انکھوں میں مصنوعی آنسوں بھی تھے ۔۔۔۔
"اوووررر ایکٹینگ" ۔۔۔۔۔فروا نے بسما کے کان میں سرگوشی کی تو بسماء نے اسے آنکھیں نکال دیکھااور کہنی اسکے پیٹ میں ماری ٹہوکا ۔۔فررا دانت کچکچا کے رہ گئی (بعد میں سیدھا کرتی ہوں اسے سوچ کر) سیدھی ہوئی ۔۔۔(بورنگ)
" دیکھوناہید کل رات ان دونوں نے جو ڈرامہ کیا ہے ابھی تک فون کالز آ رہی ہیں لوگوں کی ۔۔۔سمار نے سنجیدگی بولتے ہوئے ایک نظر اکتائے سے بیٹھے ناہل پر بھی ڈالی ۔۔۔ "ان دونوں کی امیچیورٹی دیکھ کے لگتا ہی نہیں کے یہ شادی کرنے جا رہے ہیں شہرین تو شہرین یہ ناہل بھی میچیور نہ ہو سکا "۔۔۔۔۔سخت افسوس سے انہوں نے بات میں مزید اصافہ کیا ۔۔۔۔ ناہل کرنٹ کھا کے سیدھا ہوہا ۔۔۔
"میں نے کون سی امچیورٹی دیکھا ئی ہے "۔۔۔۔وہ جھٹ سے جل کر بولا تو نایاب نے بے بسی سے سر ہلایا۔۔۔۔رات کے لیکچر کا کوئی اثر نہیں تھا. ۔
"آپ تو چپ ہی رہیں ناہل میاں ۔۔۔سمار صاب نے داہیاں ہاتھ اٹھا کے اسے قطعیت سے ٹوکا۔۔۔۔وہ ہڑبڑا کے چپ ہوہا ۔۔۔میں تو تمہاری کلاس الگ سے لینے کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ تو شکر کرو نایاب نے مجھے روک لیا ۔۔۔ورنہ کل جو تماشہ تم لوگوں نے میڈیا کے سامنے کیا ۔۔۔اسکے لیے تمہاری اچھی خاصی ٹھکائی بنتی تھی "۔۔۔۔سمار صاب نے سختی سے بات مکلمل کی تو ناہل کا سب کے سامنے اتنی انسلٹ پر منہ ہی کھل گیا ۔۔۔۔بے بسی سے ہونٹ لٹکا کر ماں کو دیکھا.۔۔۔جو آج ۔۔۔"نہ تم ہمارے نہ ہم تمہارے کی" عملی تصویر بنی بیٹھی تھیں ۔۔۔وہ مزید اداس ہوہا ۔۔۔مگر کیسے فرق پڑنا تھا.۔۔۔نایاب نے بمشکل مسکراہٹ روکی ۔۔بسماء اور فروا کی ہلکی ہلکی مسکراہٹ ناہل کے لیے جلتی پے تیل کا کام کر رہی تھی ۔۔۔
"میں بہت سخت شرمندہ ہوں سمار صاب۔۔۔۔ناہید پھر سے بولیں ۔۔۔آپ پلیز شہرین کو معاف کر دیں ساری غلطی اسی کی ہے.۔۔۔ماتھے پر بل ڈال کے شہرین کو دیکھ کے سر جھٹکا ۔۔۔نہ یہ فلم سائن کرتی نہ ناہل وہ سب کرتا "۔۔۔محبت بھری نظر سڑے سے منہ بنائے ناہل پر ڈالی
ناہل کی اسمیں کوئی غلطی نہیں ہے " ۔۔۔۔وہ گردن اکڑاتا سیدھا ہوہا ۔۔۔(اور کوئی نہیں تو کیا اسکی کبھی نہ ہونے والی ساس اسکے ساتھ تھیں)۔۔۔۔شہرین نے آنکھیں پھاڑ کے اپنی گرگٹ ماں کو دیکھا ۔ ۔اور پھر جل کڑھ کے ناگواری سے سے سر جھٹکا ۔۔۔
"واہ جی کیا پیار ہے ساس کا "۔۔۔نایاب نے دلچسپی سے ناہل کو دیکھ کے دل میں سوچا ۔۔۔
"ہممم"۔۔۔۔سمار صاب نے کچھ سمجھ کے سر ہلایا۔۔بس یہیں انہیں ناہل تھوڑا کم قصو وار لگتا تھا ۔۔۔"دیکھو ناہید ہم لوگ لاکھ ماڈرن سہی مگر ہم کبھی نہیں چاہیں گے کے ہمارے گھر کی بہو بیٹی فلموں میں کام کرے" ۔۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا ۔۔۔
"جی جی جیسا آپ کہیں ویسا ہی ہو گا شہرین کسی فلم میں کام نہیں کرے گی ۔۔۔۔ کیوں شہرین بتاو نا سب کو ۔۔تم نے رانا صاب کو کال کے کے فلم کے لیے انکار کر دیا ہے "۔۔۔انہوں نے شیریں لہجے میں بولتے پاس بیھٹی منہ بناتی شہرین کو ٹہوکا دیا تو وہ ہڑبڑا کے سیدھی ہوئی ۔۔۔۔۔"جی جی میں نے منع کر دیا ہے ۔۔۔اگر ناہل کو پسند نہیں کے میں فلموں میں کام کروں تو میں نہیں کروں گی" ۔۔۔وہ اعتماد سے گردن اکڑا کر حتمی لہجے میں بولی ۔۔۔نایاب نے شکر کا سانس لیا ۔۔۔فروا اور بسماء نے ناک سکوڑا.۔۔۔(اسی ڈرامے کی ہیپی اینڈنگ ہونی تھی بھلا) ۔۔۔۔
"فلموں میں کام تو ویسے بھی میں نے نہیں کرنے دینا تمہیں" ۔۔۔ناہل ڈھیٹ پنے سے بولا تو سمار صاب نے کچکچا کے اسے دیکھا.۔۔۔وہ بنا اثر لیے مزید بولا ۔۔۔"کل تم نے جو نایاب پر الزام لگایا ہے اسنے مجھے بھی بہت ہرٹ کیا ہے تمہیں اس سے معافی مانگنی چاہیے تب ہی میں معاف کروں گا".۔۔۔سرد مہری لیے بولتا وہ چپ ہوہا تو ۔۔۔شہرین نے دل میں اس پر اور نایاب دونوں پر لعنت بھیجی ۔۔۔
" شیور "۔ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے نایاب کے جانب مڑی جو غصے سے ناہل کو گھورتی شہرین کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔
"آئے ایم سوری نایاب ۔۔۔میں کل غصے میں جانے کیا کیا بول گئی ۔۔پلیز آپ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔مصنوعی آنسوں میں سجائے وہ باقی سب کی جانب مڑی۔۔۔آپ سب بھی پلیز معاف کر دیں مجھے ۔"۔۔۔کیا اداکاری تھی ۔۔۔(اس سال کا آسکر تو اسے ہی ملے گا )۔۔۔فروا نے کڑھ کر سوچا ۔۔۔جبکے سادہ دل نایاب کا تو دل ہی دکھ گیا ۔۔۔
"ارے نہیں شہرین ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔یہ ناہل تو ایسے بول رہا ہے ۔۔۔دانت پیس کے ناہل کو دیکھا ۔۔۔مجھے زرا بھی برا نہیں لگا ۔۔۔اور باقی سب کو بھی نہیں" ۔۔۔ابکے نرمی سے بولتی اسنے باقی ساری عوام پر بھی نظر ڈالی ۔۔۔جیسے اپنی بات کی تاہید چاہتی ہو ۔۔۔۔اور پھر اخرکار سب مسکرا اٹھے ۔۔۔لاونچ کا ماحول یک دم بدلا ۔۔۔۔شہرین نے ڈرامائی انداز میں نزاکت سے اپنی انگلی کے پور سے آنکھوں کے کنارے صاف کیے اور محبت سے سب کو دیکھا ۔۔۔
"تو پھر طے ہوہا کے سارے گلے شکوے ختم ۔۔۔نایاب مسکرا کر ہاتھ جھاڑ کے بولی ۔۔۔"رات گئی بات گئی" ۔۔۔اب کوئی کل والے واقعے کی بات نہیں کرے گا "۔۔۔وہ حتمی لہجے میں بولتی سب کو لوازمات سرو کرنے لگی جو ابھی پیارے میاں چھوڑ کر گئے تھے ۔۔۔
فروا اور بسماء تو جل بھن کے کوہلہ ہی بن گئیں ۔۔۔انکی مدر ٹیریسا نے کبھی نہیں سدھرنا تھا ۔۔۔یہ تو طے تھا.۔۔۔
****************************************
ناہل کے کمرے میں اس وقت وہ تینوں نیچے کارپٹ پر چوکڑی مارے بیٹھے تھے ۔۔۔۔ساتھ انکی تکون میز کانفرس بھی جاری تھی جسکا صرف ایک ہی ایجنڈا تھا کیسے ان دونوں مگر مچھ کے آنسوں بہاتی پھاپھے کٹنیوں کے ڈرامے کا کلاہیمکس کیا جائے ۔۔۔کہیں تجاویز پیش کی جا چکیِں تھیں۔۔۔۔جو ناہل مسلسل رد کر رہا تھا.
"ارے یار کیسے انسان ہو تم ۔۔۔کوئی آہیڈیا پسند نہیں آرہا تمہیں" ۔۔۔فروا اب کی بار تنک بولی ۔۔۔رل کر رہا تھا کے نایاب کا غصہ بھی اسی پر نکال دے
"ہمارے آہیڈیاز پسند نہیں آرہے تو خود ہی کوئی آہیڈیا دو "۔۔۔بسماء نے بھی اکتا کر اسے وارنگ دیتے کہا ۔۔۔
"تم دونوں بھی تو کوئی ڈھنگ کا آہیڈیا دو جانتی ہو نا نایاب کو ایک منٹ میں پکڑ لے گی ۔۔۔کوئی ٹوس پلان ترتیب دینا ہوگا. "۔۔وہ جھنجھلاتا ہوہا آخر میں پرسوچ انداز میں بولا. ۔
"تو کب بناوگے پلان؟؟؟ ۔۔۔۔جیسی تمہاری رفتار ہے شادی کے بعد پالان بناو گے" ۔۔۔فروا نے ناک سکوڑ کر اسے دیکھا
"تم تو چپ کرو چھپکلی کہیں کی "۔۔۔ناہل کو فروا کی بات بلکل پسند نہیں آئی تو برہمی سے بولا۔۔۔۔فروا کے تو تلوں پے لگی سر پے بجی۔۔۔دانت پیستی وہ بسماء کا ہاتھ پکڑے تیزی سے وہاں سے واک آوٹ کر گئی ۔۔۔"ہونہہ سمجھتا کیا ہے حود کو ۔۔۔اب خود ہی اکیلے پالان بنانے دو" ۔۔۔وہ بڑبڑاتی آگے جا رہی تھی اور بسماء مسکراتی ہوئی پیچھے کھنچی چلی جا رہی تھی ۔۔۔
وہ اب کمرے میں اکیلا رہ گیا تھا ۔۔۔ کچھ سوچتا ہوہا کافی مصروف دکھائی دیتا تھا سی آئی ڈی کی ساری اقساط اسکے دماغ میں گھوم رہیں تھیں ۔۔۔۔کاش اسنے جہان سکندر کو بھی پڑھا ہوتا تو اسے بھی زار اگلوانے آتے ۔۔۔۔مگر وہ رہا انگلینڈ پلٹ اسٹوڈینٹ ایک نالائق عاشق ۔۔۔(بےچارہ )......
***********************"****************
اگلے دن وہ چاروں شاپنگ پے آئے تھے ۔۔۔۔فروا اور بسما گہری سہلیوں کی طرح ساتھ چپکیں مال کا ایک ایک کونہ چھان رہیں تھیں۔۔۔۔نایاب اکتائی ہوئی انکے ساتھ چل رہی تھی ۔۔۔۔فروا اسے بھی ساتھ گھیسٹ لائی تھیں ۔۔۔(اور عورتوں کے لانگ مارچ کی وجہ سے جو ٹریفک میں خوار ہوئے ہو الگ) ۔۔۔چل چل کے اسکی ٹانگیں جواب دینے لگیں تھیں ۔۔۔"پتہ نہیں وہ دونوں کیسے چل لیتی تھیں "۔۔۔۔ دبی آواز میں بڑبڑاہی اور سر جھٹک کے ناہل کو دیکھا ۔۔اور یک دم زور سے امنڈتی ہنسی کا گلا اسنے منہ پے ہاتھ رکھ کے گھونٹا تھا ۔کیونکہ ناہل تو بے چارہ شاپنگ بیگز سے لدا بھدا بمشکل چل رہا تھا. ۔۔آگے چلتی لڑکیاں جو خوب انجوائے کر رہیں تھیں انہیں دیکھ کے اسکا خون بھی کھول رہا تھا ۔۔۔مگر نایاب ساتھ تھی اسلیے ان دونوں کو صرف برداشت کر رہا تھا ۔۔۔اور دل ہی دل میں گھر جا کر ان چڑیلوں کو سبق سیکھانے کے منصوبے بھی بنا رہا تھا.۔۔۔۔
"لاوآدھے بیگز مجھے دے دو "۔۔۔۔نایاب نے بے چارے پر ترس کھا کر اسکی مدد کرنی چاہی تو وہ انسے بےاحتیار اسکی جانب دیکھا ۔۔۔۔(گہرے جامنی رنگ کی شاور قمیص میں وہ بہت اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ڈوپٹہ ہمیشہ کی طرح سر پے لے رکھا تھا.۔۔۔بالوں کی اونچی پونی بنی تھی) ۔۔۔۔وہ مسکرا کے ناہل کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
"نہیں یار میں اٹھا لوں گا اب اتنا بھی بھاری نہیں ہے "۔۔۔اسنے نفی میں سر ہلایا اور آگے چلنے لگا۔۔۔(اسکے ہوتے نایاب مشقت کرے نہ بھئی وہ ایسا کیسے ہونے دے سکتا تھا) ۔۔۔۔فروا اور بسماء انکے رکنے کی وجہ سے کافی آگے نکل گئیں تھیں ۔۔۔۔نایاب ویسے ہی مسکراتی اس تک آیی اور زبردستی اسکے ہاتھ سے شاپنگ بیگ لے لیے ۔۔۔ناہل نے گھور کے اسے دیکھا.۔۔۔
"ّمانا کے بھاری نہیں ہیں تم اٹھا سکتے ہو مگر تم ہینڈل نہیں کر پا رہے ۔۔۔۔کچھ معاملے طاقت سے نہیں مصلحت سےحل کیے جاتے ہیں" ۔۔۔۔اور اگر پھر بھی حل نہ ہوں تو کسی سے مدد لے لینے میں کوئی برائی نہیں "۔۔۔۔سادگی سے کہتی وہ آگے آگے چل رہی تھی ۔۔۔پتہ نہیں وہ اسے نصیحت کر رہی تھی یا پھر سے کچھ سمجھا رہی تھی ۔۔۔۔وہ دلکشی سے مسکرایا ۔۔۔۔(نایاب کو سننا ہمشہ ہی ایک پلیر ہوتا تھا اسکی اطمینان سے اسکے ساتھ چلنے لگا ۔۔۔۔فروا اور بسماء انہیں فوڈ سیکشن کے جانب جایتں دیکھائی دیں تو وہ بھی وہیں چلے گئے ۔۔۔وہ دونوں ایک ٹیبل سلکیٹ کر کے بیٹھ گئیں تھیں جب ۔۔۔ ناہل اور نایاب بھی انکے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔۔۔۔ناہل نے بیٹھتے ساتھ سارے بیگز میز پر جارحانہ انداز میں پٹحے فروا نے دہل کے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
"ہائے الله ظالم لڑکے اسمیں میں میری خوبصورت کانچ کی چوڑیاں بھی ہیں آرام سے نہیں چھوڑ سکتے تھے" ۔۔۔۔فروا نے صدمے سے چوٹیوں والے شاپر میں جھانکا چوڑیاں سلامت تھیں ۔۔۔اسکا اٹکا سانس بحال ہوہا ۔ ۔
"ہاں چوڑیوں کی فکر ہے اور میں جو گدھوں کی طرح سارا سامان اٹھا کے گھوم رہا تھا اسکا کچھ نہیں"؟؟ ۔۔۔۔وہ تو تپ ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
"آہ ہاہ احسان تو ایسے جتا رہے ہو جیسے بہت بھاری سامان تھا ۔۔۔(فروا اور اسکا احسان مانے ۔۔۔"ناممکن ")۔۔۔۔"اور ہم نے دیکھا تھا آدھا سامان تم سے نایاب نے بھی لیا تھا اسنے تو آرام سے چھوڑا" ۔۔۔۔غصے سے اسے گھورا اور محبت سے نایاب کو دیکھا ۔۔۔۔جو گہری سانس لیتی کرسی پر ٹیک لگا کے بیٹھی ۔۔(ٹانگوں کو آرام ملا) ۔۔۔ ۔۔۔
"اب ہر کوئی نایاب تھوڑی ہوتا ہے" ۔۔۔۔ناہل نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔۔۔"کیا مطلب ہے تمہارا؟؟" ۔۔۔فروا تو بھڑک ہی گئی ۔۔۔
"یار تم لوگ گھر جاکے لڑ لینا ۔۔۔ابھی کچھ کھانے کو آڈر کرو "۔۔۔۔اس سے پہلے یہاں دنگل ہو جاتا بسماء بیچ میں بول پڑی ۔۔۔۔فروا منہ بناتی سیدھی ہوئی ۔۔اور ناگواری سے سر جھٹکا ۔۔۔۔ناہل نے ایک ہونہہ والی نظر اس پر ڈالی ۔۔۔۔
ان لوگوں نے کھانے کے لیے سینڈوچیز اور جوس منگوا لیے تھے ۔۔
"شہرین میڈم کدھر ہیں آج؟؟ ۔۔۔جو ناہل کی جان چھوٹی ہوئی ہے ""۔۔۔۔بسماء اپنا سینڈوچ ختم کرنے کے بعد جوس پیتی سرسری سا بولی. ۔۔۔
"عورتوں کے لانگ مارچ میں گئی ہے" ۔۔۔ناہل نے لاپرواہی سے سینڈوچ کا آخری نوالہ کھاتے ہوئے کھا. ۔۔۔پھر چونک کے سیدھا ہوہا ۔۔۔"تم لوگ بھی تو عورتیں ہو تم کیوں نہیں گئی عورتوں کے لانگ مارچ میں"؟؟ ۔۔۔۔نوالہ حلق سے اتار کے اسنے حیرت سے ان سب کو دیکھا ۔۔۔
"او ہیلو مسٹر عورتیں کسں کو بولا ہم تینوں لڑکیاں ہیں ۔۔۔وہ بھی خوبصورت والی"۔۔۔بسماء جوس کا گھونٹ بمشکل سے گلے سے اتارتی صدمے سے چیخی تھی ۔۔۔۔(توبہ وہ انکو سر عام عورتیں بول رہا تھا حد ہی ہو گئی تھی آج )۔۔
"بلکل ۔۔۔خبردار جو ہم کو عورتیں بولا تو "۔۔۔فروا بھی دوبدو بولی ۔۔۔۔ناہل نے سر پکڑ لیا ۔۔۔چڑیلیں پھر سے جان کو آگیئں ۔۔۔نایاب مسکراہٹ دبائے سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
"اور رہی بات ہماری لانگ مارچ میں نہ جانے کی تو ہم لڑکیاں ہیں اور وہ عورتوں کا مارچ ہے اسلیے ہم نہیں گئے "۔۔۔فروا نے معلومات میں مزید اصافہ کیا ۔۔۔اور شانے اچکاتی واپس ٹیک لگا کے بیٹھی ۔۔۔بسماء نے اسکی تاہید میں زور سے سر دھنا ۔۔۔
"اچھا لڑکیوووو( لڑکیوں کو زور دے کر لمبا کھینچا )۔۔۔تم لوگوں کو شوق نہیں ہے کے عورتوں کو انکے حقوق دلانے نکلو" ۔۔۔ناہل تپی ہوئی مسکراہٹ لیے چبا کے بولا ۔۔۔
"یار اب کون دھکے کھائے ۔۔۔۔ہماری جگہ باقی ساری گئی تو ہیں ۔"۔۔فروا نے ہاتھ جھلا کے ناک سکوڑا ۔۔
"مطلب کے تم تینوں کو مردوں کے برابر حقوق نہیں۔ چاہیں ؟؟؟ "۔۔۔ ناہل نے حیرت سے سوالیہ آبرو اٹھا کے فروا کو دیکھا ۔۔۔
"بلکل " ۔۔۔فروا فورا سے پہلے بولی ۔۔۔۔عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہییں۔۔۔اس معاملے میں ہم ان عورتوں کے ساتھ ہیں "۔۔۔وہ گردن اکڑا کر اپنی بات پر رعب دیتی بولی ۔۔۔
"مگر مجھے لگتا ہے کے عورتوں کو پہلے سے ہی مردوں سے بہتر مل رہا ہے ۔۔۔اور کیا برابری چاہیے "۔۔۔ناہل فل بحث کے موڈ میں آچکا تھا ۔۔۔
"کیا مل رہا ہے بے چاری عورتوں کو ؟؟۔۔۔ہر چیز میں پیچھے ہیں ۔۔۔مردوں کو ہمیشہ طاقت ور کہا جاتا ہے۔۔۔۔حاکم کہا جاتا ہے ۔۔۔عورتیں بے چاری صدا کی غلام" ۔۔۔فروا نے جزباتی انداز میں ٹیبل پر ہاتھ مارا اس وقت ساری عورتوں کی ترجمانی وہ اکیلی کر رہی تھی ۔۔۔انداز ایسا تھا ۔۔۔کے جیسے اقوم متحدہ کے وفد سے تقریر کر رہی ہو ۔۔۔(نایاب اکتا کے ان دونوں کو سن رہی تھی یہ ایسی بحث تھی جو آج کل سب کی زبان پر تھی ۔۔۔جس کا کوئی حاصل بھی نہیں تھا).۔۔۔
"مگر یہ حقوق الله نے مرد کو خود عطاء کیے ہیں. ۔۔ قرآن میں واضح ارشاد ہے کے مرد کو عورت پر حاکم بنایا گیا ہے "۔۔ ۔۔۔۔ناہل اسے پوری طرح لاجواب کرنے چکر میں تھا آحر نایاب کے ساتھ کا اثر تھا.۔۔۔۔اور واقعی فروا کچھ پل کے لیے لاجواب ہوگئی ۔۔۔بات قرآن کی آ گئی تھی اب وہ کیا لاجک دیتی ۔۔۔اسنے سٹپٹا کے نایاب کی جانب دیکھا ۔۔۔(فورا آنکھیں چمکیں) ۔۔۔آخر اس سے بہتر جواب کون دے سکتا تھا.۔۔۔فروا نے اطمینان سے کرسی سے ٹیک لگائی ۔۔۔ "میرا جواب نایاب دے گی" ۔۔۔مزے سے کہا آور آنکھیں ٹپٹپا کے نایاب کو دیکھا ۔۔۔جو اسکی بات سن کے اسے ( تو باہر مل مجھے بتاتی ہوں ) والی نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔۔فروا کے گلے میں گلٹی ڈوب کے ابھری ۔۔۔مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا نایاب کی انسلٹ وہ جھیل لے گی مگر ناہل سے ہار ۔۔۔کبھی نہیں ۔۔۔سو وہ بنا اثر لیے اسے ویسے ہی دکیھتی رہی ۔۔۔
ناہل اور بسماء نے بھی اسے دلچپسی سے دیکھا ۔۔۔"میں نایاب کا جوب سننا پسند کروں گا" ۔۔۔ناہل نے آرام سے کہتے کرسی سے ٹیک لگائی ۔۔۔نایاب نے قابل فہم نظروں اسے دیکھا پھر بسماء کو ۔۔۔"تمہیں بھی میرا ہی جواب چاہیے "؟؟۔۔۔سوالیہ آبرو اٹھا کے اس سے پوچھا ۔۔۔
"ہاں بلکل مجھے بھی چاہیے "۔۔۔وہ جھٹ سے بولی ۔۔۔آحر اسے بھی مسلے کا حل جاننا تھا ۔۔۔۔نایاب نے تاہیدی انداز میں سر ہلایا ۔۔۔ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی ۔۔۔کرسی پر تھوڑآ آگے ہو بیٹھی ۔۔۔ کہنیاں میز پر ٹکاہیں ۔۔۔ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست کیں ۔۔۔
"تو تم لوگوں کو جواب چاہیے" ۔۔۔استہفامیہ نظروِں سے سب کو دیکھا ۔۔۔
"یس"۔۔۔سب کا یک لفظی جواب فوراً حاصر تھا ۔۔۔
"ٹھیک ہے پھر پہلےمیں جو پوچھو اسکا جواب تم سب بھی دو گے "۔۔۔(سب نے زور سے اثبات میں سر ہلایا )
"تو میرا پہلا سوال" ۔۔۔اسنےشہادت کی انگلی سب کو دیکھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ "ایک مرد CSS کا امتحان پاس کرتا ہے تو وہ اسٹنٹ کمشنر لگ جاتا ہے ۔۔۔مطلب ستھرویں گریڈ کا افسر؟؟؟ ۔۔۔۔سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھا( سب نے پھر سر زور سے ہلائے) ۔۔۔"اور ایک عورت پبلک سروس کمشن کا امتحان پاس کر کے کسی کالج یاویونیورسٹی میں لیکچرر لگتی ہے تو سکا گریڈ بھی ظاہر ہے سیم ہی ہو گا ؟؟؟۔۔۔۔اسنے حاموش بیٹھی عوام سے اپنی بات کی تاہید چاہی. ( سب نے پھر سے سر ہلائے )۔۔۔
"اب دیکھو ان دونوں مرد اور عورت کا گریڈ بلکل سیم ہے" مگر احتیارات کس کے پاس زیادہ ہوں گے؟؟. ۔۔۔سوالیہ آبرو پھر سے اٹھی ۔۔۔
"اسسٹنٹ کمشنر کے پاس" ۔۔۔۔ناہل سکول کے بچوں کی طرح پرجوش ہو کے بولا ۔۔۔
"ایگزیٹلی "۔۔۔نایاب کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ۔۔۔۔"دونوں کا گریڈ سیم ہے مگرجس طرح احتیارات AC کے پاس زیادہ ہوتے ہیں بلکل اسی طرح ایک ٹیچر کے پاس ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں۔۔۔۔AC کو اپنے ماتحت بندوں سے کام نکلوانا ہوتا ہے تو ایک ٹیچر کو بچوں کو اس قابل بنانا ہوتا ہے کے کل وہ بھی AC لگ سکیں۔۔۔۔بلکل اسی طرح مرد اور عورت کا معیار ہے ۔۔۔مرد کے پاس اگر احتیار زیادہ ہے تو عورت کے پاس زمہ داریاں زیادہ ہیں ۔۔۔مرد کے پاس طاقت زیادہ ہے تو عورت کے پاس برداشت زیادہ ہے ۔۔۔مرد کھانے کا سامان لا سکتا ہے مگر اس سامان کو "کھانے لائق "ایک عورت بنا سکتی ہے ۔۔۔مرد مکان بنا سکتا ہےمگر اسے" گھر" ایک عورت ہی بناتی ہے ۔۔۔جیسے یہ "معاشرا "مرد کا ہے ویسے ہی معاشرے کے سارے "گھر" عورت کے ہیں ۔۔۔ ۔سادہ لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کے دونوں کے گریڈز سیم ہیں مگر احتیارات الگ الگ ۔۔۔اسلیے عورت اور مرد میں کمپیریزن نہیں کرنا چاہیے ان دونوں میں کمپیریزن بنتا ہی نہیں۔۔۔سادگی سے کندھے اچکائے گہری سانس لیتی وہ پانی پینے رکی ۔۔۔آرام سے تین سانس میں پانی حتم کیا اور گلاس واپس میز پے رکھا ۔۔۔ کرسی سے ٹیک لگا کے بیٹھی اور سلسلہ کلام دوبارہ شروع کیا ۔۔۔۔۔رہی بات کے مرد کو عورت پر حاکم بنا کے بھیجا گیا ہے؟؟ ۔۔سوالیہ آبرو اٹھا کے ناہل کی جانب دیکھا ۔۔۔۔ ۔۔۔جھک کے اسے چہرے کے قریب آئی ۔ ۔۔۔"حاکم کون ہوتا ہے ناہل ۔۔۔۔؟؟"چیلیجنگ انداز میں اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔۔
وہ کچھ نہیں بولا ویسے ہی حیران نظروں سے اسے دیکھتا رہا ۔۔۔(بول بھی کیسے سکتا تھا ۔۔ سارے الفاظ تو اس ساحرہ نے جیسے قید کر لیےتھے )۔۔۔وہ نفی میں سر ہلاتی واپس پیچھے ہوئی ۔۔۔"کتنی عجیب بات ہے کسی بھی مرد کو قرآن کی کوئی دوسری آیت آئے نہ آئے یہ آیت ضرور یاد ہوتی" ۔۔۔تلحی سے مسکرائی ۔۔"لیکن تم مردوں کو اگر حاکم کی ڈیفینیشن آ جائے تو تم لوگ دعا کرو کے ہمیں کے حاکم نہہیں غلام ہی بنایا جائے" ۔۔۔۔ "حاکم" (زوردے کے بولا )جسکےاوپر سب کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔۔۔جو سب کے اچھے برے کا جواب دہ ہوتا ہے ۔۔۔جو خود سے پہلے عوام کو سہولیات مہیا کرتا ہے۔۔۔(حاکم بننا آسان نہیں نفی میں سر ہلایا) یہ ایک سنہری تاج سر پے سجانے جیسانہیں ۔۔ایک کسے ہوئے شکنجے جیسا ہے" ۔۔ہاتھ کی مٹھی مصبوطی سے بند کر کے دیکھائی ۔۔۔"جس میں حاکم کو اپنا سر پھسانا ہوتا ہے اور عوام کو آزاد رکھنا ہوتا ہے۔۔۔(پھر حاموش ہوئی)ایک گہرا وقفہ لیا "اور ایک آحری بات اللہ کے علاوہ کوئی ایسا حاکم نہیں جو خود بنا ہو ۔۔۔دنیاوی حاکم عام عوام ہی بناتے ہیں" ۔رعب سے کہا ۔۔۔"اورعام عوام ہی انہیں تحت سے واپس سڑک پے بھی لا پھینکتے ہیں " ناہل !!!!
۔۔اب اسنے حتمی لہجے میں بات حتم کی اور مسکرا کر سب کو دیکھا ۔۔۔اسکے چپ ہونے سے ایک سحر سا ٹوٹا ۔۔۔بت بنے ان تین لوگوں میں جنبش اردگرد کھڑے لوگوں کی تالیوں کی آواز سے آئی ۔۔۔وہ تینوں بھی بےاحتیار کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگے تھے ۔۔۔ ان تینوں کی آنکھوں میں نمی تھی ۔۔۔اسکے لیے فحر سا تھا ۔۔۔اور وہ جو لاپرواہ سی بیٹھی تھی اس افتاد پر گھبرا کے چاروں طرف دیکھا ۔۔۔لوگوں کا جم گفیر اگھٹا ساتھا ۔۔۔ کرنٹ کھا کے کھڑی ہوئی۔۔(اب ایسا بھی کیا کہہ دیا تھا اسنے) ۔۔۔۔"آپ سب کا شکریہ مگر میں ان سب کو بس سمجھا رہی تھی nothing else"۔۔۔ وہ شرمندہ سی بولی ۔۔۔تالیاں مزید بڑھ گئیں ۔۔۔اسنے کوفت سے آنکھیں میچیں ۔۔۔"بپلک فیم" اسے کبھی نہیں چاہیے تھی ۔۔۔مگر اسے مل جاتی تھی" اپنے آپ ہی" ۔۔۔۔۔شاید یہ اسکے رب کی عطا کردہ عزت تھی ۔۔اور وہ "اچھے بندوں" کو ایسا ہی اجر عطا کرتا ہے. ۔۔۔۔
ناہل کو آج اپنی پسند پے رشک آیا تھا ۔۔۔۔بے شک وہ ایک نیک عورت تھی ۔۔۔اور نیک عورت کی ذمہ داری بھی تحت سنبھالنے سے بھی زیادہ مشکل تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔