گلے میں کچن اپرین پہنے وہ مصروف سی بڑے سےکانچ کے باول میں انڈے بلنڈ کر رہی تھی ۔۔۔اسکے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھےاور حوبصورت ہونٹ کچھ گنگناہٹ میں میں ہلتے نظر آتے تھے ۔۔۔بالوں کا رف سا جوڑا بندھا تھا.۔۔جسکے اطراف سے چند لٹیں اسکے چہرے کو چھو رہیں تھیں ۔۔۔سفید کھلی سی شرٹ اور ٹراوزر میں وہ رف سے حلیے میں تھی ۔۔۔
انڈے بلینڈ کرنے کے بعد اسنے پہلے سے تیار کردہ کیک کے مکسچر میں ڈالے اور پھر سارے آمیزے کو الیکٹرک بیٹر کی مدد سے بلینڈ کرنے کے بعد کیک بیک کرنے والی ڈش میں ڈالا ۔۔۔"جو دل کی شکل میں تھی" ۔۔۔تین ڈشز میں آمیزہ ڈالنے کے بعد اسنے وہ تینوں ڈشز پری ہیٹیڈ اون میں رکھ دیں ۔۔۔۔ٹاہمر سیٹ کیا اور سارا پھیلاوا سمیٹا ۔۔
کیک کی آہسنگ تیار کر کے کون میں ڈالی اور فریج میں رکھ دی ۔۔۔
کیک بیک ہونے تک وہ نگٹس ،سموسے ،پکوڑے اور کباب تل چکی تھی ۔۔۔ کیک نکال کے فریج میں رکھا ۔۔۔اسکے ٹھنڈا ہونے تک ساری تلی ہوئی اشیاء ڈش میں سجاہیں ۔۔۔اور انہیں ساہیڈ پے کیا ۔۔۔اور ایک جوس کا گلاس لے کچن میں موجود چھوٹے سے ڈاہینگ ٹیبل پر بیھٹی ۔۔ایک گہری سانس لی مسلسل کام کرنے سے تھوڑا تھک گئی تھی ۔۔۔۔
گھونٹ گھونٹ جوس پیتی وہ کیک پر لگانے کے لیے پھول بنا رہی تھی ۔۔۔کیک کی آہسنگ سفید تھی جبکے اس پر لگنے والے پھول فیروزی رنگ کے تھے ۔۔۔۔نہایت مہارت سے پھول تیار کرنے کے بعد اسنے باقی بچا جوس جلدی سے پیا ۔۔۔اور فریج سے کیک والی تینوں ڈشز نکال کے ٹیبل پر رکھیں ۔۔۔وہ تین منزلہ کیک بنا رہی تھی ۔۔۔۔بے حد مصروفیت سے کام کرتے اسے اردگرد کا ہوش نہیں تھا ۔۔"ایک بیکری کی آنر گھنٹوں یہ کام حوشی سے کر سکتی تھی۔۔"
کچن سے باہر لاونچ میں دیکھو تو صوفے ہٹا کے جگہ حالی کی گئی تھی ۔۔۔فرش پر ایک طرف فیروزی اور سفید رنگ کے غباروں کا ڈھیر لگا تھا ۔۔۔اور ڈھیر کے پاس بیٹھے اس گھر کے ملازم مسلسل غبارے پھولا رہے تھے ۔۔۔ ان سے تھوڑا دور ایک صغیف عمر عورت بیٹھی تسبی کے دانوں پر کچھ پڑھتی ان سب پے نظر بھی رکھے ہوئے تھیں ۔۔۔
وہ جب کیک سیٹ کرنے کے بعد کچن سے باہر آئی تھی توغبارے پھولاتی عوام کو دیکھ کر اسکی ہنسی بے ساحتہ نکلی تھی ۔۔۔ سب کے چہرے لال پیلے ہو رکھے تھے سانس بری طرح سے پھولے ہوئے ۔۔وہ ہنستی ہوئی دادو کے پاس رکھے سٹول پے دھپ سے بیٹھی تھی ۔۔۔سب نے بری نظروں اسے گھورا تھا ۔۔
"دیکھو اس لڑکی کو میرا غبارے پھولا پھولا کے دم نکلنے لگا ہے اور یہ دانت نکال رہی ہے" ۔مالی نے حفگی سے اسے دیکھ کے کہا تھا ۔ ۔
"باجی میں نہیں کر رہی یہ فصول کام مزید" ۔۔۔مالی بابا کی دیکھ سعدیہ بھی جھٹ سے بولی جو صفائی کا کام کیا کرتی تھی
"اور نہیں ہو تو کیا ۔۔۔مجھے کچن سے نکال کے اس کام پے لگا دیا"۔۔۔۔۔۔پیارے میاں کیوں چپ رہتے آحر کو خانساماں جو ٹھرے یہاں کے ۔۔۔ بری شکلیں بنائے وہ سب سراپہ احتجاج تھے ۔۔۔
"چپ کرو تم سب ذرا ذراسی بات پر موت پڑ جاتی ہے ۔۔۔باقی سارا کام تو حود کیا میری نایاب نے تم سب سے یہ موئے غبارے نہیں پھولتے ۔۔۔کام چور نہ ہوں تو" ۔۔گھرگ کے کہتی دادو نے سب کی بولتی بند کی تھی ۔۔ اور ایک محبت بھری نگاہ اپنی پوتی پے ڈالی تھی جو مسکراہٹ دبائے سنجیدگی سے آستین اوپر کرتی دوبارہ کام کرنے کھڑی پو چکی تھی ۔۔۔۔
"ہاں بلکل ٹھیک کہاآپ نے دادو" ۔۔۔ اسنے تاہیدی انداز میں سر ہلایا۔۔۔۔"ہیں تو یہ سارے کام چور ۔۔۔مگر دیکھیں کیسے میں ان کام چوروں سے سارا کام کرواتی ہوں"۔۔۔ وہ چٹکی بجاتی آنکھوں میں شرارت لے کے ان سب کی جانب مڑی "چھوڑو یہ کام اٹھو سب ڈیکوریشن بھی کرنی ہے" ۔۔ نئے حکم پر سب شکر کرتے اٹھے ۔۔۔اس کام سے تو جان چھوٹی ۔۔
"تم بیھٹو ادھر میرے پاس ۔۔۔انہیں کرنے دو کام" ۔۔۔دادو نے اسے بازو سے پکڑ کر دوبارہ پاس بیٹھا دیا ۔۔۔ "ان سب کو نکما کر دینا ہے تم نے "۔۔۔
دادوکی بات سن کے وہ مسکرائی اور انکے گلے میں باہیں ڈالیں انکا گال چوما ۔۔"دادو آپکو پتہ تو ہے مجھے کسی کا کیا ہوہا کام نہیں پسند "۔۔۔ (دادو کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا) ۔۔"اور جیسی ڈیکوریشن میں کرنا چاہتی ہوں یہ سب نکمے ویسی نہیں کر سکتے" ۔۔۔گلے سے باہیں نکالیں اور انکے پیچھے سے جاکے انکی وہیل چیر پکڑی ۔۔۔۔اور مسکرا کر اسکا رح انکے کے کمرے کی جانب موڑا ۔۔
"ارے لڑکی مجھے کدھر لے چلی۔۔ رکو"۔۔ ۔۔۔دادو نے اس افتاد پر گھبرا کے احتجاج کیا مگر وہ بنا سنے انکی وہیل چیر کو رولر کوسٹر بنائے کمرے میں لے گئی ۔۔۔
"ہم نے صفائی کرنی ہے اور آپکو ڈسٹ الرجی ہے ۔۔۔اسلیے آپ کمرے میں رہیں گی "۔۔۔وہ انہیں بیڈ پر احتیاط سے لیٹاتے ۔۔۔۔معصومیت سے بولتی وہ فورا باہر بھاگی ۔۔۔نہیں تو دادو کا لیکچر پھر سے شروع ہو جاتا ۔۔۔
اور دادو اسکو کوستیں ٹیک لگا کے بیٹھیں ۔۔۔" اس لڑکی نے نہیں سدھرنا "۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر آتے ہی وہ کام میں لگ کئی ۔۔۔سارے لاونچ کو سفید اور فیروزی رنگ کے غباروں سے سجایا ۔۔۔ ساتھ چھوٹی چھوٹی لاہٹس بھی تھیں ۔۔اور وہ ڈھیر سارے جگمگاتے ستارے جو چھت سے لٹکائے تھیے سارے منظر کو حوبصورت بناتے تھے ۔۔۔
لاہٹس کی لڑویوں کو محتلف جگہوں پر ٹانکتے وہ بے حد مصروف تھی ۔۔۔کے دفغتًا اسکی توجہ لینڈلاہن کے بجتے ٹیلیفون کی جانب مبذول ہوئی. ۔۔
اسنے اپنے چاروں طرف دیکھا ۔۔ کے کوئی فون اٹھا لے مگر وہ سب گھونگھے بہرے بن کے اِدھر اُدھر بھاگتے کام نپٹا رہے تھے ۔۔۔( جیسے وہ تو سمجھتی ہی نہیں تھی ان سب کے ناٹک )اسنے ڈھیروں غصہ صبط کیا ۔۔۔اور لاہٹس کو زور سے پٹھحتی زوروں سے بجتے فون کے پاس آئی ۔۔۔
"ہیلو""۔۔۔بےزاری سے بولتی وہ باقی سب کو ہلکا سا ہنسا گئی ۔۔۔اسنے مڑ کے سب کو گھورا ۔۔۔"تم سب کو بعد میں سیدھا کرتی ہوں" والی نظر ڈال کر وہ فون کی طرف متوجہ ہوئی جہاں کوئی نان اسٹپ بول رہا تھا ۔۔۔
"سوری سوری سوری۔۔۔سوری فار دا لیٹ وش میں بھول گیا تھا" ۔.
"happy birthdays my beautiful young lady....I love you so much "
......نایاب کی آنکھیں اس لڑکے کی بکواس سن کے باہر گرنے کو تھیں
"اوہ ہیلو کون ہو۔۔۔مسلسل شروع ہی ہو گئے ۔۔نا سلام نہ دعا نہ پوچھا کے فون جس نے اٹھایا وہ آپ کا مطلوبہ بندہ ہے بھی کے نہیں ۔۔ریڈیو کی بس بولے ہی جارہے ہو بولے ہی جا رہے ہو" ۔۔۔۔(مطلب حد ہے کوئی کرتا ہے اسطرح)
"سوری مجھے لگا مام ہیں" ۔۔۔فون کرنے والا ایک دم شرمندگی سے بولا ۔۔۔پھر چپ ہوہا۔۔۔"مگر آپ کون ہیں اور اس وقت میرے گھر کر کیا رہی ہیں ؟؟"۔۔۔۔۔
"میں نایاب ہوں"! ۔۔۔تھوڑا تحمل سے مگر اکتاہٹ سے جواب دیا ۔۔۔ کام چور ٹولی باقی سارے کام چھوڑ کر کن سوہیاں لینے لگی ۔۔۔ ۔۔
"اوہ اچھا مام نے کوئی نئی کام والی رکھی ہے ۔۔۔۔ نئی ہو اسلیے معاف کیا۔۔۔چلو اب میری مام سے بات کرواو زرا " ۔۔۔دوسری طرف نہایت لاپرواہی سے بولی گئی بات نایاب کے تلو پے لگی اور سر پے بجی
"اوہ ہیلو میں نوکرانی نہیں ہوں اوکے ۔۔۔یہ میری پھوپھو کا گھر ہے" ۔۔۔۔وہ چمک کے بولی تھی باقی سارے منہ پے ہاتھ رکھے ہنسنے لگے تھے ۔۔۔جیسے انکو سمجھ آگیا کے دوسری طرف سے کیا کہا گیا ہے ۔۔۔وہ غصے ان سب کی جانب مڑی تو جھٹ سے کام کرنے لگے ۔۔۔
"ایک منٹ تم نایاب ہو ۔۔۔"نایاب "۔۔۔فاورق ماموں کی بیٹی!! ۔۔۔دوسری جانب سے بے یقینی سے پوچھا گیا تھا. ۔۔۔
"ہاں وہی ہوں" ۔۔۔وہ سر جھٹک کے منہ بنا کے بولی ۔۔۔
"اوہ مائے گاڈ! تم نایاب سریا ممانی کی نک چڑی بیٹی تم ہمارے گھر کیسے آ گئی؟!" ۔۔۔وہ گہرے شاک میں لگتا تھا ۔۔
"ہاو ڈیر یو کال می نک چڑی ۔۔۔ہو ہودا ہیل آر یو؟" ۔۔
۔۔۔وہ دبا دبا غرائی ۔۔۔اور پھر پیچھے مڑ کے کھی کھی کرتے ملازموں کو دیکھا ۔۔۔وہ دوبارہ کام کرنے لگے۔۔۔"ہونہہ بدتمیز"
"ڈونٹ ٹیل می کے تم مجھے نہیں جانتی نایاب" ۔۔۔بےیقینی سے بولتا وہ نایاب کو مشتعل کر گیا ۔۔۔
"کیوں تم مرزاغالب کے چھٹے سالے ہو جسکو جاننا میرے لیے بہت صروری ہے" ۔۔کرارا سا جواب سن کے وہ بےساحتہ زورسے ہنسنے لگا ۔۔۔اور یہاں نایاب کی بس ہوئی ۔۔
"دیکھو تم بتاو کے کون ہو ورنہ میں رکھنے لگی ہوں فون ۔۔۔"
"ارے رکوفون مت رکھنا ۔۔۔میں نائل بات کر رہا ہوں ۔۔۔تمہاری پھوپھو کا بیٹا جو انگلینڈ میں پڑھتا ہے " ۔۔۔ ہنسی کو بریک لگاتاوہ جلدی سے بولا مبادہ کے فون ہی نہ رکھ دے
نایاب کی آنکھیں پٹ سے کھلیں ۔۔۔ایک منٹ کے لیے فون کان سے ہٹا کے سامنے کیا ۔۔۔اور حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔گہری سانس لی ۔۔۔"تم پہلے بتا دیتے تو میرا اتنا وقت نہ برباد ہوتا "۔۔۔گھبراہٹ پے قابو پاتے وہ بمشکل بول پائی
"توبہ ہے بندہ حال چال ہی پوچھ لیتا ہے اِنتہائی کوئی بے مروت لڑکی ہو" ۔۔۔وہ جیسے سحت افسوس میں تھا
"ابھی مروت دکھانے کا وقت نہیں ہے ۔۔۔جلدی بولو کیا کام ہے "۔۔۔ازلی بےنیازی سے کندھے اچکاتی وہ گھڑی دیکھنے لگی تھی ۔۔۔جہاں بارہ بجنے میں محض ایک گھنٹا رہتا تھا ۔۔۔
"مام کہاں ہیں میری بات کرواو" ۔۔۔۔وہ تو جل ہی گیا تھا
وہ مارکیٹ گئی ہیں ۔۔اب وہ بور ہونے لگی تھی ۔۔
"کیا مطلب ابھی کون سا وقت ہے مارکیٹ جانے کا" ۔۔۔وہ جھنجھنلا اٹھا۔۔
"کیوں اس وقت مارکیٹ جانے پے پابندی عاہد ہے" ۔۔۔فٹ سے جواب آیا۔۔ "تمہیں کوئی کام ہے تو مجھے بتا دو" ۔۔۔وہ اسکی سات نسلوں پر احسان کرنے انداذ مین سرسری سا بولی۔۔
"چھوڑو مجھے بتاو وقت کیا ہوہا ہے" ۔۔۔مزید بحث کرنے بجائے وہ پاکستان کا وقت پوچھ بیٹھا ۔۔۔کہیں وش کرنے میں لیٹ نہ ہو جائے
"ڈونٹ ٹیل می کے انگلینڈ والے اتنے غریب ہیں کے ان کے پاس ایک گھڑی نہیں اور تمہیں وقت معلوم کرنے کے لیے یہاں فون کرنا پڑتا ہے" ۔۔۔ وہ تپ کے بولی ایسے جواب پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑا ۔۔۔
"تم انگلینڈ میں ہی پڑھتے ہو نا،اتنے نکمے لڑکے کو ان لوگوں نے ایڈمشن کیسے دے دیا ۔جو بلاوجہ فون کر کے لوگوں کا اور اپنا وقت برباد کرتا ہے" ۔۔۔۔۔اسکا ہسنا اسے مزید مشتعل کر رہا تھا۔۔۔
"یہ تو تمہیں یونیورسٹی والے ہی بتا سکتے ہیں کہو تو نمبر دوں" ۔۔۔وہ شرارت سے بولا تو نایاب کا دل کیا اسکی گردن مروڑ دے
"تم میرا دماغ حراب مت کرو. مجھے بہت سے کام ہیں ۔۔۔رکھو فون" ۔۔۔شدید عضے کو صبط کرتی وہ تحمل سے بولی
"یہ کام تو آپ حود بھی کر سکتی ہیں. ۔۔یا پھر مجھ سے بات کرنے کا بہانہ ہے". ۔ مزے سے کہتا وہ نایاب کا دماغ خراب کر گیا ۔۔۔
"تم نا جہنم میں جاو میری طرف سے." ۔۔تنک کے کہتی وہ فون کریڈل پر پٹح کر جارحانہ انداز میں پیچھے مڑی تو لاونچ میں بھگدڑ سی مچ گئی ۔۔سب فورا بھاگے ۔۔
"کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔۔مگر تم سب کو کیا پتہ وہ کیا ہوتی ہے. ۔۔۔چلا کے کہتی وہ سر جھٹک کے اپنا کام کرنے لگی ۔۔۔۔انداز ایسا تھا کوئی چھیڑے مجھے پھر اپنی ماں کو روئے ۔۔اور اتنی عقل تو سب میں تھی اس وقت نایاب فاروق کو نہیں چھیڑنا ۔۔۔وہ مسکراہٹ دبائے اپنا کام کرتے رہے ۔۔۔ڈیکوریشن مکمل کرنے کے بعد وہ ایک بری نظر سب پے ڈالتی اوپر اپنے کمرے میں گئی ۔تو سب ہنستے ہنستے دوہرے ہو گئے تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں ڈریسنگ کے آگے کھڑی وہ تیار ہو رہی تھی ۔۔۔ سفید لمبی قمیص جسکے گلے اور دامن پر فیروزی سٹون ورک ہوہا تھا ساتھ سفید چوٹی دار پاجامہ اور فیروزی رنگ کا ڈوپٹہ جسکے کناروں پر سفید پول بنے تھے اسکی شفاف رنگت پے خوبصورت لگ رہا تھا۔۔(وہ بہت زیادہ خوبصورت نہیں تھی مگر اسکی آنکھیں خوبصورت تھیں ۔۔۔گہرے سبز رنگ کی آنکھیں جو سامنے والے کو سحر میں مبتلا کر دیتیں تھیں)
۔۔۔۔پارٹی کی مناسبت سے یہ ڈریس اسنے خود ڈیزاہن کیا تھا ( فیشن ڈیزاہینگ میں ماسڑز کرنے کے وہ خود کا ایک بوتیک بھی چلاتی تھی جو کافی مشہور تھا) .. بال جو کمر تک آتے تھے لیرز میں کٹے تھے سٹریٹ کر کے مانگ نکالی اور دونوں اطراف سے آگے ڈالے۔۔۔لاہنر لگانے کے بعد مسکارا لگایا ۔۔۔ہلکہ سا پنگ لپ گلوز لگانے کے بعد بیڈ تک آئی بیٹھی اور جھک کر سفید ہیلز میں پیر مقید کیے ۔۔کھڑی ہوئی ڈوپٹہ سیٹ کیا اور ایک گہری سانس لیتی ہائی ہیلز سے ٹک ٹک کرتی نیچے آئی ۔۔۔جہاں سب تیار ہو کے آچکے تھے ۔۔۔سعدیہ دادو کو تیار کر کے باہر لا چکی تھی (جنکا سوٹ بھی سفید اور فیروزی تھا۔۔جو اسی نے گفٹ کیا تھا )۔۔ وہ ستائش بھری نظریں پورے لاونچ پے ڈالتی مسکرا رہیں تھیں ۔۔۔
وہ زینے اترتی نیچے آئی تو سب نے بے احتیار اسے دیکھا تھا ۔۔ وہ بےنیاز مسکراہٹ سے چلتی ہوئی دادو کے پاس آئی۔۔۔"کیسی لگ رہی ہے ڈیکوریشن ۔۔۔؟؟*اسنے ایکسائٹمنٹ سے دادو کی جانب مڑ کے پوچھا ۔۔۔
"ہمیشہ کی طرح خوبصورت "۔۔۔دادو بے احتیار مسکراہیں ۔۔"مگر اس سب سے زیادہ ۔(۔دادو نے لاونچ کی طرف انگلی گمائی )۔۔۔میری پوتی خوبصورت ہے* ۔۔۔انگلی اس پر آرکی ۔۔۔"ایسے ہی رہا کرو ہر وقت ماسی بنی رہتی ہو" ۔۔دادو نے مصنوعی غصے سے اسے گھورا تو وہ گھٹنوں کے بل یبٹھی کے انکے دونوں ہاتھ تھامے ۔۔۔اور محبت سے انہیں دیکھا۔۔
"میں ایسی ہی ہوں اور ایسی ہی رہوں گی ۔۔۔میری پیاری دادو"۔۔۔ہاتھ نکال کر انکا گال تھپتھپایا ۔۔
"تب ہی تو اتنی اچھی لگتی ہو مجھے "۔۔۔دادو نے بھی اسکا گال تھپتھپایا ۔۔دادو کی بات پر اسکی آنکھیں شرارت سے چمکیں ۔۔۔مسکراہٹ دبائی اور چہرے پر سنجیدگی طاری کی ۔۔"ناہل سے بھی ذیادہ ؟؟"معصومیت سے آنکھوں میں حیرت سموئے وہ دادو،کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔جنکے چہرے پر اب مشکوک تاثرات تھے
"اچھا تو تم مجھ بوڑھی کا امتحان لو گی اب ۔۔۔اتنی بڑی نہیں ہوہی" ۔۔۔اسکی شرارت سمجھ کے دادو نے اسکا کان مروڑا ۔۔تو وہ گڑبڑا گئی ۔۔ کام چور ٹولی پھر سے کام چھوڑ کر ان دونوں کی باتیں سننے لگی تھی ۔۔
"سوری میں تو مزاح کر رہی تھی" ۔۔۔آنکھیں میچ کے منت کی اور کان چھڑوا کے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
"نہ نہ اور کرو نا مجھ سے مزاح" ۔۔۔دادو نے اترا کر کہا تو وہ ہسنے لگی ۔۔۔باقی سارے بھی گردنیں جھکائے ہسنے لگے تو وہ تیوری چھڑائے ان کی جانب مڑی ۔۔۔مسکراہٹ اب غاہب تھی۔۔اورعضہ نمایاں تھا،۔۔
"تم سب یہاں کھڑے کھی کھی کرتے رہو ۔۔۔کام نہ کرنا ۔۔ چلو سب پھپھو آنے والی ہوں گی کام ختم کرو" ۔۔۔وہ غصے سے بولی تو سب اپنے اپنے کاموں کو دوڑے ۔۔۔
*گڈ "۔۔۔گردن اکڑا کے کہتی وہ کچن میں سے کیک لینے گئی ۔۔۔جب وہ کچن میں سے کیک لے کے آئی تو سب آنکھوں میں اشتیاق لیے اسکے گرد جمع ہوئے ۔۔۔ وہ احتیاط سے چلتی ٹیبل تک آئی ۔۔۔نچلا لب دانتوں میں دبائے کیک میز پر سیٹ کیا ۔۔۔سب سانس روکے کیک کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔سفید رنگ کا تین منزلہ کیک ۔۔۔ جس پر فیروزی رنگ کے پھول لگے تھے ۔۔۔
"شاندار" ۔۔۔سب نے مسحور کن لہجے میں کہا تو وہ مسکرائی ۔۔۔گردن تھوڑی اور آکڑائی ۔۔۔ اورپھرمسکراہٹ بمشکل چھائی۔۔ وہ تو ناراص تھی ان سب سے ۔۔
دفعتاًباہر گاڑی رکنے کی آواز آئی تو وہ جو بے نیاز سی کھڑی تھی اسکی آنکھیں پٹ سے کھلیں۔۔۔"چلو جلدی چھپو سب ۔۔۔اور سعدیہ لاہٹس آف کو ساری جلدی کرو "۔۔۔ناراصگی بھلائے سب کو آڈرز دیتی وہ دادو کی طرف بھاگی ۔۔۔وہیل چیر گما کے میز کے پیچھے کھڑی ہوئی سعدیہ نے لاہٹس آف کیں ۔۔۔وہ سب بھی میز کے گرد جمع ہوئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔