اب منہ پہ ہاتھ رکھے میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ونڈو کو دیکھ کر مجھے یہی حل نظر آیا شکر تھا اس کی گرل نہیں تھی اسے کھول کر میں نے اپنے آپ کو گھسانے کی ہرممکن کوشش کی اس چکر میں میرا ہاتھ زخمی ہوگیا لیکن بہرحال میں نکل آہی اور بڑی مشکلوں سے ریلنگ سے لٹک کر جمپ ماری وہاں کوڑے دان کا ڈربہ تھا اس کے اوپر کور تھا شُکر لیکن میرے گھٹنے بڑی زور سے لگے پھر میں تیزی سے سارے درد بھلا کر بھاگنے لگی میں جہاں رہتی تھی وہ امیروں والا علاقہ ہی تھا اس کے ساتھ آپ کے گھروں کا ولا سٹارٹ ہوتا تھا ایک دو گھر چھوڑ کر آپ کا ہی تھا اور میں اِدھر اس لیے کیونکہ وہاں ایک مسلمان کا نام لکھا تھا پتا نہیں مجھے اللّٰلہ نے یہ بات دل میں ڈالی کے میرے ایمان رکھنے والے بندوں پر ایک بار پھر بھروسہ کر کے تو دیکھ اور اب آپ کے سامنے ہوں اور مجھے پتا ہے وہ مجھے ڈھونڈ کر پولیس کے حوالے کردیں گے اور میرے پاس سوائے پاسپورٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔"
وہ اپنے بہتے آنسو کو صاف کرتے اب چُپ ہوگئی تھی اور معید ایک دم اسے دیکھتا رہا پھر اُٹھ گیا اور فون نکالا اور آگئے بڑھ گیا
"ہلیو علورد اسلامک سینٹر سے مولوی صاحب کو بلوادوں ۔"
علورد جو سگیرٹ پی رہا تھا ایک دم جھٹکے سے اُٹھا
"کیا ہوا تو اسلام قبول کررہا ہے ۔"
وہ قہقہ لگاتے ہوے ہنسا
"بکو نہیں نکاح کے پیپرز لیے آنا ۔"
"کیا مطلب ہے ۔"
اب تو کچھ گڑبڑ لگی
"او نو معید کہی تو اس لڑکی سے ۔"
"ہاں میں گل زارا سے شادی کررہا ہوں اور تو آدھے گھنٹے کے اندر اندر آ سمجھے ۔"
اس نے فون بند کردیا اور مڑا زارا کو دیکھا جو خود کو کمپوز کررہی تھی پھر اسے دیکھا
"آپ پلیز مجھے کسی دوسرے شہر تب تک کے لیے بھیج دیں ۔"
"بھیج دوں گا اتنی جلدی کیا ہے ۔"
وہ مسکرایا اور زارا نے سر ہلا کر سر تھام لیا
"ائیم سوری مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔"
"کیا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔"
وہ اب اس کے پاس آیا لیکن اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گیا اور مسکراتی نگاہوں سے زارا کو دیکھ رہا تھا
"آپ کو اپنی بیوی کہہ کر آپ کی گرل فرینڈ کو نکال دینا ۔"
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا
"وہ میری گرل فرینڈ نہیں ہے ایسی چپک رہی تھی میرے آفس میں کام کرتی ہے بس اچھی خاصی بات چیت ہے داٹس اٹ !۔"
وہ چُپ ہوگئی اور وہ پیچھے ہوکر گہری نظروں سے دیکھنے لگا جو اس کی کچھ ہی گھنٹوں میں سب کچھ ہونے والی تھی یہ کیسا احساس تھا جو اس کو اتنی جلدی فیصلہ کرنے پہ مجبور کیا تھا ایک ہی دن میں پورے ایک دن میں وہ اسے اچھی لگنے لگی تھی مطلب اچھی سے بھی کچھ اوپر تھا
"آپ سے ایک بات پوچھو ۔"
وہ اسی کو دیکھ رہا تھا زارا کو دیکھنے پہ گڑبڑا گیا
"پوچھو !۔"
"کیا آپ کے ٹی وی پہ یہ صرف انگلش ڈرامے اور موویز کے علاوہ کچھ نہیں لگتا ۔"
ہے !!!
"مطلب ! پاکستان کا کوئی ڈرامہ بھی نہیں ہے ہائے وہ ڈاکڑ اسفی !!۔"
لو جی ایک تو وہ ابھی اس سے نکاح کرنا والا ہے اور اس کے ایک سے ایک محبوب نکل رہے ہیں ،اُف معید دل آیا بھی تو کس پہ
"نہیں کوئی نہیں آتے اگر آتے بھی ہے تو بھی تم میری اجازت کے بغیر نہیں دیکھو گی ۔"
"یہ کیا تُک ہوئی بھلا ۔"
وہ بگڑ گئی سارا غم چہرے سے گزر گیا اب وہ اپنے اصل فورم میں آگئی اتنا تو یقین تھا اس شخص کے انڈر محفوظ ہے تو ڈر بھی چھو کر گزر گیا
"جی یہی تُک ہوئی اور اس تُک کو اکسیپٹ کریں گی آپ !۔"
"دیکھو زیادہ فری نہ ہو میں نے اپنی کمزوری بتادیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کمزور ہوں یا تمھارا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔"
"یہ بات کہا سے آگئی ۔"
ایک دم بیل ہوئی تو وہ اُٹھا
"اب دوسری ماں آئی ہوگی اس کی اب اسے کیا کہو نہیں بھائی واقی وہ ہمدردی کو پھینک کر باہر دفعان کریں گا ۔"
وہ منہ بنا کر مڑی تو دو لڑکوں اور دو لڑکیوں کے ساتھ ایک عدد مولوی صاحب اس کے ڈرائنگ روم میں انٹر ہوئے اور بیٹھے تھے وجہ نظر آنے والا بڑا سا شیشہ تھا جو باہر والے کو اندر والے نظر آتے تھے لیکن اندر والے کو نہیں وہ دیکھ رہی تھی جب معید باہر آیا
"یہ کون ہے ؟۔"
وہ اس کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
وہ اس کو سرتاپا دیکھ رہا تھا جو اسی کے ڈھیلے ڈالے کپڑے میں ہی تھی
الجھے بال ہلکہ سا نیل پڑا چہرہ واہ کیا دلہن ہے
"اُٹھو ! ۔"
"کیا ؟۔"
"یار اُٹھو ۔"
"میں بالکل بھی ان کے پاس نہیں جاوں گی اور نہ ہی تمھاری نوکر بن کر انھیں سریو کرو گی ۔"
"نوکر کون بنا رہا ہے تمھیں بیگم صاحبہ ۔"
وہ شرارت سے مسکرا کر اسے کھینچتے ہوئے بولا
"اوئچ ! معید تم پھر بکواس کی نا میں تمھیں ماروں گی
"جی بھر کے مار لینا پہلے یہ ہوڈی سر پہ پہنو میرے پاس اور کچھ نہیں اور چلو ۔"
"کیا کررہے ہو ۔"
وہ بولی وہ اس کو پہنا کر ہاتھ پکڑا
"ہاتھ مت لگاوں مجھے !۔"
"اچھا ٹھیک ہے چل کر آجاو۔"
"تو چل کر ہی آتے ہے میں کیا کرال کر کے آو گی ۔"
وہ جل کر بولی تو وہ ہنس پڑا پھر اپنی ہنسی کو روکا اور اس کا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹے
"معید !!! اللّٰلہ !"
وہ چیخی اور اس کے پُشت پہ زور سے ہاتھ مارا تو وہ اگنور کرتا ہوا اندر لایا تو جب سب نے آتی ہوئی دلہن کو دیکھا تو پہلے سب حیرت سے منہ کھولے دیکھتے رہے تو پھر اچانک میسن اور علورد کا قہقہوں سے ڈرائیونگ روم مزید لوگوں کی قہقہوں سے گونج اُٹھا معید نے انھیں گھورا اور زارا معید کے پیچھے چھپ گئی زور دار مکا معید کی کمر پہ مارا معید کہرا اُٹھا
"اُف !!"
"معید لاو نا اپنی زارا کو پھر پارٹی کرنئ ہے ۔"
زارا ایک دم جھٹکے سے الگ ہوکر سامنے آئی
"یہ کیا ہورہا ہے ۔"
"ناموں کے ساتھ دو دل جڑ رہے ہیں ۔"
وہ سنیجدگی سے کہتا ہوا آگئے آیا اور ساتھ ایک صوفے پہ بیٹھایا
"شروع کریں مولوی صاحب ! "
زارا ایک دم ساکت ہوگئی اور معید کو دیکھنے لگی جو اس وقت بلیو شرٹ اور بلیک پینٹ میں خوبصورت لگ رہا تھا پھر سامنے پڑے مرر میں اس نے اپنے آپ کو دیکھا
تو چہرہ دھوا دھوا ہوگیا وہ اس شخص اس کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی وہ ہمدردی اور مجبوری سے بنا رشتہ نہیں چاہتی وہ جانتی ہے وہ اس کی مدد کرنے کے تحت سب کررہا تھا وہ روکنے لگی جب وہ آخری قبول ہے بول کر اب سائن کررہا تھا زارا کے پاس اب بھی وقت تھا وہ روکنا چاہتی تھی لیکن زبان ناجانے کیوں شل تھی ۔
پھر اس سے پوچھنے کا وقت آیا تھا تو اس نے خاموشی سے سر جکھا کر ہاں کردیں اس کے پاس کیا راستہ بچا تھا اگر ایسا ہونا تھا تو ایسا ہی صحیح
وہ ڈرائینگ روم سے باہر آگئی اور کچن میں آئی اور سٹول پہ بیٹھ گئی آنسو بے اختیار ہوگئے اور نکلنے لگے اس نے انھیں صاف کرنے کی زحمت نہیں کی اور سر کاوئنڑ پہ رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جسم بھی جھٹکا کھا رہا تھا جب کسی نے اسے کھینچا تو دیکھا معید آنکھیں سکیڑ کر اس کی روئی ہوئی صورت دیکھ رہا تھا
"یار شکل سے اتنا بُرا آدمی نہیں ہو جتنا تم رورہی ہو اور فکر نہ کرو کرم جلی سے زیادہ اہمیت دوں گا ۔"
وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر منہ چھپا کر رونے لگی
"تم قربانی کا بکرا کیوں بنے معید !۔"
"وہ تو ہر شخص بنتا ہے میں بن گیا ہو تو کون سی نئی بات ہے ۔"
وہ شانے اچکاتے ہوئے بولا اور ہاتھ ہٹائے "اُف پہلی شکل ڈروانی ہے مزید ڈرارہی ہو ۔"
"ہٹو ! "
وہ اسے دھکا دینے لگی خود دھکا دیتے ہوئے بھی گرنے لگی کے معید نے اس کی کمر پکڑی اور دوسرا ہاتھ کاونڑ کو تھاما تک بیلنس رہے زارا نے دیکھا وہ اس کے چہرے پہ جھکا ہوا تھا اس کی گرم سانیسں زارا کا چہرہ جھسلا رہی تھی دل کی دھڑکن بڑھتی گئی اور سانس جیسے رُکنے کو تہہ کر چکی تھی
"مم معید !۔"
وہ ہکلائی وہ مزید قریب ہوا تھا کے کسی گلا کھنکھارنے کی آواز آئی معید کا دل خراب ہوگیا دوسرا زارا ٹھنڈی پڑ گئی
"معید صاحب ہنی مون بعد میں مناتے رہنا ہمیں پارٹی چاہیے ۔"
علورد شرارت سے بولا جبکہ میسن کی ہنسی چھوٹنے والی تھی
"تم کمینوں کو دیتا ہوں پارٹی میں نکلوں یہاں سے ۔"
"اچھا یار غصہ تو نہ ہو لیکن صبر تو کر جا پہلے بھابی اور تم تیار ہوکر آو ویسے ضرورت نہیں ہے بھابی اور تم ویسے بھی بہت شاندار لگ رہے ہو ۔"
وہ ہنسے اور معید کو بھی ہنسی آئی لیکن زارا کی سُرخ آنکھیں دیکھ کر وہ بولنے لگا کے زارا ہٹ کر دوسرے دروازے کی طرف بڑھ گئی اور معید نے چمچا اُٹھا کر پھینکا جسے علورد نے کیچ کیا اور وہ مسکراہٹ دباتا ہوا آگئے بڑھ گیا