جب بیل والے نے قسم کھا لی کے وہ آج سونے والے کو اُٹھا کر ہی دم لیے گا تو ایسے کیسے ہوسکتا تھا کے سونے والا پُرسکون ہوکر گھوڑے بیج کر سوتا ، معید نے تکیہ سے منہ اُٹھایا اور بولا
"او آرہا ہوں مرن جوگے پتا نہیں کون سا خزانہ ہے جو کسی بھی حال میں گھر میں گھُسنا ۔"
بیڈ سلپر پہن کر اس نے تیزی سے دروازہ کھولا اور سڑھیوں کے نیچے آیا بیل ایک بار پھر بجی تو چیخا
"او آرہا ہوں الو کے کان ۔"
معید نے بھاگتے ہوئے دروازہ کھولا اور سامنے والے کو سخت سسُت سنانے لگا تھا جب ایک بارش میں بھیگی تھر تھر کانپتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر اس نے اپنی زبان کو روکا کیونکہ یہ کوئی میلبیرون کی گوری نہیں تھی یہ کوئی شکل سے ایشن دیکھنے والی لڑکی تھی یقینن انڈین یا پاکستانی اور اس کے لیے حیرت کی بات تھی جو رات کے تین بجے تیز بارش میں اس کے گھر موجود تھے مئے کا دن تھا جہاں سردی کا سما شروع ہونے والا تھا آسٹریلیا کے علاوہ اس وقت پورے دُنیا میں موسمِ بہار آچُکی تھی اور اسٹریلین کے سویٹر پہنے والے دن آگئے تھے
"آئیم سو سوری لیکن کیا میں آپ کے گھر اندر آسکتی ہوں ورنہ وہ لوگ مجھے ماردیں گئے ۔"
وہ اُردو میں بولی تھی کیونکہ اسے معید دیکھنے میں پاکستانی لگا تھا
"رات کے تین بجے آپ کیا کررہی ہے ۔"
"دیکھیے پلیز میرے پاوں پہ چوٹ لگی ہے مجھے اپنی موت کی پروا نہیں ہے بس عزت کی خاطر آپ سے درخواست کررہی ہوں پلیز پلیز آپ ایک پاکستانی ہونے کی ناطے میری مدد کردیں ۔"
وہ اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی معید پھونچکا گیا کیونکہ واقی لڑکی کی حالت صحیح نہیں تھی ایک تو اس کے ہاتھ خون سے بھرے ہوئے تھے اوپر سے اس کی پینٹ گھٹنے کے سائڈ سے بھی رنگی ہوئی تھی معید کو ترس آیا وہ جلدی سے دروازہ پورا کھول کر بولا
"آئے اندر آئے ۔"
وہ پیچھے ہوئے تو وہ لڑکھڑا کر اندر آئی اس نے دیوار کو ہاتھ لگانے لگی لیکن اریکیٹکٹ صاحب کہاں برداشت کرتے لاکھ ہمدردی ہی صحیح لیکن اتنی مہنگی دیوار پہ خون کے دبے اس نے فورن اس کا ہاتھ پکڑ لیا وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی آنکھوں میں وحشت تھی معید سمجھ گیا اس لیے بولا
"گھبڑائے نہیں میں ایک شریف آدمی ہوں آپ کے خون سے دیوار گندی ہوجاتی ۔"
کمال کا صاف گو معید اب بھی باز نہیں آیا
"ا ائی ائیم سوری ۔"
وہ شرمندگی سے بولی اور اپنا خون سے لت پت ہاتھ ہوڈی کی جیب میں ڈالا
"یہ کیا کررہی ہے آپ ۔"
وہ اب تیزی سے بولا
"آپ کا کارپٹ خراب ہوجائے گا ۔"
وہ معصومیت سے بولی معید کو ہنسی آئی وہ بھی کیا بول جاتا ہے
وہ اسے لیکر لائونج کے بجائے کچن میں لیے گیا اور وہ لنگراتے ہوئے آہستہ آہستہ کر کے اس کے پیچھے آئی
معید نے تیزی سے سٹیل کی کُرسی کھینچی اور اس کے سامنے کی
"بیٹھیے آپ ۔"
وہ مشکور نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بیٹھی
وہ سیدھا کبرڈ کو کھولنے لگا اور وہ درد سے کہرا رہی تھی وہ اپنی پینٹ اوپر کر کے اپنا زخم دیکھنا چاہتی تھی لیکن وہ کسی اجنبی کے سامنے یہ نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے سر جکھائے بیٹھی رہی اللّٰلہ کا شُکر ہے کے گھر میں گھُس گئی ورنہ تو آج جو اس کے ساتھ ہوتا سوچتے ہی اس کا جسم کانپ چکا تھا جبکہ آنکھوں میں ایک بار پھر وحشت نے جگہ لے لی چہرہ پہ پسینے ایک بار پھر آگیا اسے رونا ناجانے کیوں آرہا تھا کاش وہ یہاں نہ آتی کاش وہ امی اور گھر والوں کی باتوں اور نظروں پہ کان اور آنکھ بند کرلیتی لیکن وہ بھی کیا کرتی مجبوری ایک ایسا لفظ ہے جو انسان کو باندھ دیتا ہے بالکل زنجیر کی طرح ۔
وہ ایڈ باکس اُٹھا کر لایا اور گھٹنے کے بل بیٹھا تو وہ ہوش میں آئی
ایک دم اس نے ہاتھ پیچھے کیے
"آپ رہنے دیں ،می میں خود کر لو گی ۔"
وہ اس کی جھجھک بھی سمجھ گیا تھا اس لیے کندھے اچکاتے ہوئے اس نے باکس بھی دیں دیا وہ بائے ہاتھ سے پکڑ کر اس کا شکریہ کہنے لگی اس کا جسم سردی اور درد کے باعث جھٹکے کھا رہا تھا اسے تھوڑا خیال آیا کے کیوں نہ کوئی گرم چیز دیں دو
"میں ابھی آیا ۔"
نیند تو اُڑ گئی تھی اس لیے کافی بنانے کا ارادہ کرنے سے پہلے سب سے پہلے اس کو اپنا جمپر دیں دے ورنہ جس طرح اس کی ہوڈی تھی بہت ہی پتلی سی اس سے صاف پتا چل رہا تھا اس کے پہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا
وہ کچن سے نکل کر سیدھا اوپر اپنے کمرے میں پہنچا اور کمرے کی طرف ڈریسنگ روم کے اندر داخل ہوکر اس نے کچھ تلاش کرنا چاہا جو اس چھوٹی سی بچی ٹائیپ لڑکی کو کچھ پورا آجائے الماری کے پٹ کو تھامے اس کی پُرسوچ نظریں اپنی قمیتی کپڑوں پر تھی اس میں سے اچانک اس نے ایک بلیک جمبر کے ساتھ براون سویٹر نکالا اور اس کے ساتھ بلیو سوفٹ مٹریل سے بنا ہوا بجامہ نکال کر وہ نیچے کی طرف بڑھا دیکھا وہ گھٹنے کی طرف جھکی ایٹیسپیٹک لگا رہی تھی درد سے وہ سسک رہی تھی معید اسے دیکھنے لگا لائٹ بُراون بال بال جس پہ ہلکی سی گولڈن ہائیلیٹنگ ہوئی وی تھی پونے میں باندھے اس کے لمبے بال منہ پہ آرہے تھے صاف رنگت پہ تھیکے نقوش معید ایک منٹ کے لیے تو ٹہر گیا تھا پھر سر جھٹک کر آگئے بڑھا بس ٹھیک تھی ایسی بھی کوئی بات نہیں تھی
قدموں کی چاب پر اس نے تیزی سے اپنی پینٹ نیچے کی پینٹ زخم پر لگنے سے اسے تکلیف ہوئی لیکن اس نے لب دبا لیے تاکہ اس کی آواز نہ نکلے
"ام یہ لے کپڑے آپ کے یہ گندے ہوچکے ہوگے اینڈ سامنے ہی گیسٹ روم ہے آپ وہاں جاسکتی ہیں شاور سے گرم پانی نکلتا ہے بیشک لیے لے آپ کے مرضی اور پھر آپ آرام سے سوجائے کل بات کریں گئے ۔"
"پر میں ۔"
وہ جھجھکی
"کیا؟"
"آپ کے گھر میں اور کوئی ہے ؟۔"
وہ اس کی بات پہ مسکرایا
"جس طرح آپ نے بیل بجائی تھی اس طرح مردہ بھی اُٹھ کر آجاتا تو پھر تو میں انسان تھا میرے ساتھ باقی بھی موجود ہوتے لیکن ایسی کوئی بات نہیں میں اس گھر میں اکیلا رہتا ہوں ۔"
اب اس نے دیکھا اس لڑکی کا چہرہ سفید ہوگیا
"آپ اکیلے ۔"
"جی میں اکیلا لیکن آپ گھبڑا کیوں رہی ہے میں بھوت تھوڑی ہوں ۔"
وہ کپڑے اس کو دینے کے بجائے کاونڑ پہ رکھتے ہوئے بولا
"اکیلا مرد تو کسی بھوت سے کم نہیں ہوتا ۔"
وہ خود سے کہتے ہوئے بولی آنکھوں میں بے بسی کے مارے نمی آگئی
"اینی ویز آپ لے اور بے فکر رہے آپ اس گھر میں محفوظ ہے بیشک روم لاک کر لے اگر آپ کو مسئلہ ہے ۔"
اس نے سر ہلایا اور خاموشی سے اس کے کپڑے اُٹھائے اور لڑکھڑا کر چلنے لگی معید کی نظر اس کے ہاتھوں پہ پڑی جو بڑی ہے عجیب سی بینڈیج کی تھی
"ٹہریے !۔"
زارا نے مڑ کر اسے دیکھا
"حد ہوگئی آپ اس سے اچھا بینڈج نہ ہی کرتی ۔"
وہ جھنجھلا کر بولا اور اس کا بازو پکڑا زارا نے ہاتھ کھینچنا چاہا لیکن اس کی گرفت مضبوط تھی
"نہیں ٹھیک ہے آپ کو ایسے ہی غلط فہمی !۔"
"چُپ میرے بیڈشیٹ خراب کریں گی آپ دیکھے اِدھر سے خون بہہ رہا کیا کر کے آئی تھی آپ اور وہ کون لوگ ہے ۔"
وہ تو اس سے ایسے بات کررہا تھا جیسے ان کے درمیان بہت دوستی ہوئی ہو اور فکرمند دوست کی طرف اس سے استفار کررہا تھا وہ خاموش رہی البتہ اسے دیکھنے لگی جو اب اس پٹی کو اُتار رہا تھا اعصاب کھینچے ہوئے تھے جیسے اسے بڑی ہے الجھن تھی کھڑی ناک سیدھا اسے پوئنٹ کررہی تھی کالے بال اس کے سونے کے باعث الجھے ہویے تھے لیکن اچھے لگ رہے تھے وہ ایک چھ فٹ تین انچ کا خوبصورت مرد آدھے نقش سے پاکستانی اور آدھے یہی کے رہنے والے نقوش لگ رہے تھے زارا نے اسے دیکھنے کے بعد نظریں پھیر لی اور دل ہی دل میں آیت الکُرسی پڑھنے لگی کے اللّٰلہ اس کی خفاظت کرنا
"میں نے آپ سے کچھ پوچھا ۔"
معید کی آواز پہ وہ چونکی اور اس کی طرف دیکھا جو بڑی ہی تیزی اور نفاست سے اس کے ہاتھ پہ پٹی باندھ کر اب کینچی سے کاٹ کر اسے باندھ رہا تھا
"آپ نے کچھ کہا ؟۔"
معید کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیر گئی اس بیقوف سے وہ کل ہی پوچھے ابھی اس کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی ۔
"کچھ نہیں ہوگیا اب آپ جائے بلکہ رُکیے۔"
وہ اُٹھا اور الماری سے میڈسن باکس سے پین کلرز نکالے اور پانی کا گلاس فریج کے باہر گلاس سے پانی ڈال کر اس کی طرف آیا
"یہ لے پین ریلیف اس سے درد ٹھیک ہوجائے گا ۔"
"آپ کا بہت بہت شُکریہ میں آپ کی بہت احسان مند ہوں ۔"
وہ شرمندگی سے بولی
"بہرحال میں اوپر ہی ہوں اگر آپ کو کچھ بھی چاہیے آپ یہ دیوار کے ساتھ لگا بٹن دبا دیجیے گا امیرجینسی کے لیے لگوایا تھا میں آجاو گا اوپر آنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو ۔"
"پر ۔"
"آپ کیا ہے ؟۔"
وہ بیزار دکھنے لگا زارا کو منہ بند کرنا پڑا الریڈی اس اجنبی کو تنگ کر چکی تھی وہ کمرے میں لاک لگا لی گا نا اب اس کے کمرے کی باہر چوکیداری تھوڑی کرسکتا تھا ۔
"ٹھیک ہے آپ جائے ۔"
"بڑی مہربانی ۔"
وہ گہرا سانس لیتا ہوا مڑ گیا اور زارا بھی بڑھ گئی اس نے دیکھا وہ اوپر نہیں گیا اسے دیکھ کر کمرے کا اشارہ کرتا ہوا پھر چل پڑا
وہ سر کو خم دیتے ہوئے اندر آئی اور پھر شاور لینے کا ارادہ کرتی ہوئی بڑھی
وہ سویا ہوا تھا جب بیب کی آواز سے وہ فورن اسے بند کرنے کے ارادے سے الارم کی طرف ہاتھ بڑھانے لگا لیکن یہ الارم کی بیپ نہیں بلکہ فون کی رنگ ٹیون تھی اسے بستر پہ ڈھونڈنے لگا جب نا ملا تو اسے لعنت بھیج کر دوبارہ تکیہ پہ منہ دیں دیا جب دوبارہ رنگ ٹیون بجنے لگی تو وہ سر پکڑ کر تیزی سے بستر سے اُٹھا کے کمبل اس کے پیر سے الجھا اور وہ ٹھا کر کے نیچے گرا
"گاڈ کیا مہنوس دن ہے نہ رات کو چین نہ دن کو آرام اُف کہاں جاوں ۔"
اس نے اپنا سر پکڑا اور اُٹھا دیکھا تو فون بھی اس کے ساتھ لیٹا ہوا تھا اس کو اُٹھا کر اس نے دیکھا لیزا کی کال تھی ناچارہ اسے اُٹھانا پڑا
"ہلیو ۔"
وہ خاصی بدمزگی سے بولا
"معدی تم کہاں ہوں یونی آفس کیوں نہیں آئے ۔"
"کیوں تمھارا ورکر ہوں جو پوچھ رہی ہو کے کیوں نہیں آیا ۔"
جو معید آفندی کے نیند میں خلل ڈالتا تھا وہ اس کا قریبی سے قریبی انسان بھی دُشمن بن جاتا تھا
"طبیعت ٹھیک ہے بھول گئے ہو کس سے بات کررہے ہو ۔"
"ہاں انگریزوں سے بات کررہا ہوں جس نے سالوں سے ہمارا جینا حرام کیا ۔"
وہ اُردو میں بولا کیونکہ لیزا انگلینڈ سے تھی
"دیکھو اُردو میں میرے مت بُرایاں کرو اور اتنی کیا تکلیف ہوئی میں بس پریشان ہوگئی تھی ۔"
وہ بھی تیزی سے کہنے لگی
"کوئی ضرورت نہیں پریشان ہونے کے اُف ایک کم تھی جو تم نے میری نیند خراب کررہی تھی نہیں آرہا آج آفس ۔"
وہ کہتے ہوئے کھٹک سے فون بند کرچکا تھا لیزا اس کی گرل فرینڈ تھی اسے پتا تھا اب اسے منانے کے لیے ایک عدد شاپنگ جو لاکھوں پر مشتمل ہو کے ساتھ کینڈل لائٹ ڈنر پر ہی وہ مانے گی
"مجھے کیا بھاڑ میں جائے مجھ سے اتنے نخرے برداشت نہیں ہوتے ۔"
ایک دفعہ معید صاحب کسی سے بیزار ہوجائے تو کوئی شخص ان کا دل ٹھیک کرنے پہ روک نہیں سکتا تھا لیکن سے پانج دفعہ بریک آپ کے باوجود وہ پیچ آپ کرچکا تھا وجہ اس کی خوبصورتی اور بے اُنتہا پیسے کی تھی وہ ماڈل کے باوجود بھی معید کی خاطر اس کی کمپنی میں کام کرتی تھی اور معید کو کیا اعتراض ہونا تھا کام کرتے وقت بھی کمپنی آج پہلی دفعہ اسے لیزا سے مکمل بیزاری ہوئی تھی اس کا دل نہیں کررہا تھا اس لمبے منہ والی لڑکی کی شکل دیکھنے کو وہ مزید سونا چاہتا تھا لیکن اسے یاد آیا ایک لڑکی بھی اس گھر میں موجود ہے زرا اس کا بھی پتا کریں کہی چور وور ہی نہ ہو وہ تیزی سے کمبل پھینک کر اُٹھا اور بال سنوار کر واش روم کی طرف بڑھا منہ دھو کر اور دانت برش کر وہ نکلا اور نیچے کی طرف بڑھا وہ نیچے آیا تو اس نے دیکھا خاموشی تھی یانی وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی تھی ،کمرے سے باہر نہیں آئی تھی یا ڈاکا ڈال کر فرار ہوگئی معید دی جمیز بونڈ بن کر دیوار کے پاس گیا اور اس سے چپک کر دروازے کے قریب آئے انھوں نے ہینڈل کھولنا چاہا اسی پل ہینڈل خود گھمایا گیا اور وہ باہر نکلی زارا معید کو ایک دم دیکھ کر گھبڑا گئی اور چیخ گئی معید خود بھی بھونچکا کر پیچھے ہوا زارا پہلے تو اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگی پھر اس نے معید کو دیکھا تو اس کو دیکھ کر شرمندگی ہوئی
"ائیم سوری مجھے لگا ۔"
"توبہ ہے آپ چیختی ہے تو کوئی لگتا ہے بندہ اوپرا گا رہا ہو چیخ میں بھی سُر ۔"
معید کے حیرت سے کہنے پر وہ خفت سے سُرخ پڑ گئی
"آپ کو کوئی کام تھا ؟۔"
وہ اس کمرے کی طرف آنے کا مقصد پوچھنے لگی
"نہیں بس دیکھنا چارہا تھا آیا آپ مشکوک ہے یا مظلوم ؟۔"
"دیکھیے ابھی بھی آپ مجھے اپنے گھر سے نکال سکتے ہیں لیکن وہ کمینہ شخص مجھے جیل بجھوا دیں گا اس لیے جب تک مجھے اپنا پاسپورٹ نہیں مل جاتا مجھے کم سے کم ایک دن کے لیے رہنے دیں یا مجھے اس ایڈریس پہ
"او مس سپیڈی زرا بریک لگا دیں ورنہ ابھی اکسیڈنٹ ہوجانا ہے ایزی ایزی لیڈی میں تمھیں اپنے گھر سے نہیں نکال رہا اوکے او کچن میں پھر مجھے آرام سے اپنی الف لیلی سُنا لینا ٹھیک ہے ۔"
معید نے اسے بولنے سے روک دیا تو زارا پُرسکون ہوگئی چلو کم سے کم نیک آدمی ہے ۔نیک ہے یا نیکی کی شکل میں ایک اور درندہ اُف ایک تو زارا کی چھٹی حس اسے غلط ٹائیم پہ غلط ہی بندے کو سگنل دیتی تھی ۔
سکون کی جگہ زارا کے دل میں ڈر آگیا پہلے سوچا کے یہاں سے بھاگ جائے پھر ہوا اگر جیل میں گھس گئی تو پھر تو آسٹریلیا کی جیل کا تو اسے خوب پتا تھا اوپر سے اماں کو پتا چلا تو وہی اللّٰلہ کو پیاری اور اوپر سے کوئی اس کا اپنا بھی نہیں ہوگا اسے چھڑوانے
"میڈیم یہ مادام تُساد نہیں ہے نہ ہی آپ کوئی معروف شخصیت جس لوگ اپنے ساتھ کھڑے ہوکر تصویر بنائے گے تو سٹیچو نہ بنے اور جلدی سے لنگڑا کر آجائے ۔"
انتہائی سنجیدگی سے کہتا ہوا وہ زارا کو سوچ کے دُنیا سے نکلاتے ہوے بولا وہ معید کی ائیروگنس پہ وہ بل کھا کر رہ گئی ۔پھر مجبوراً اس کے دماغ نے سگنل دیا چلو پوری دُنیا کو آزما لیا ہے اس کو بھی آزما لیتے ہیں ۔
وہ اندر آئی تو وہ صاحب جی تو تیزی سے ناشتہ بنانے میں مصروف ہوچکے تھے توبہ اتنا سُگر مرد اور وہ بھی اتنے سلیقے اور تیزی سے کام تو شاہد کسی عورت نے بھی ان کے ہاں نہ کیا ہو ایک تو اس کے ماموں زاد اتنے نکھٹو ،کام چور اور یہ اتنے بڑے گھر میں رہنے والا خود بیشک باہر سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہے پر یہ تو امیر بندہ ہے باہر اس کی چار کڑور کی آسٹن مارٹن اور یہ ولا بھی تو کڑوروں میں ہوگا واقی حنبل بندہ ہے ۔
"ایسے کھڑے رہی گی یا کچھ کریں گی بھی چلے جلدی سے فریج سے دودھ نکالے اور وہ سامنے پڑا ہے کافی مشین اور کافی کا ڈبہ پہ ساتھ پڑا ویسے کافی تو بنانے آتی ہے نا آپ کو ۔"
وہ تو ایسے مخاطب ہورہا تھا جیسے وہ اس گھر کی کوئی فرد ہو اور اس حکم دیں رہا تھا یہ کام کرو وہ اندر سے جھنجلا اُٹھی لیکن بولی
"جی مجھے بنانے آتی ہے ۔"
"چلوں پھر میرے لیے کپیچینو اور اپنے لیے بیشک کوئی بھی بنا لینا ۔"
ڈیمانڈز تو دیکھو اس کو جیسے وہ اس کی نوکر ہو وہ گھورتے ہوئے لڑکھڑا کر آگے چلنے لگی تو معید نے آگے بڑھ کر ریموٹ اُٹھا کر فریج کے ساتھ ہی میوزک سسٹم سے Michael Jackson کا billie Jean لگا دیا اور پھر جب اس کو لنگڑتے ہوئے دیکھا جو کافی کی پاس دودھ پکڑ کر گئی تو اس کو بے انتہا ہنسی آئی اور اس کا واقی قہقہ چھوٹ گیا وہ گھبڑا کر مڑی
"کیا ہوا ؟"
لیکن وہ قہقہ لگانے میں مصروف تھا
"اُف آج مائیکل سر زندہ ہوتے تو پتا ہے آنکھوں میں آنسو آجاتے آپ کا سٹیپ دیکھ کر پھر پتا ہے کیا ہوتا ۔"
"کیا ہوتا ۔"
اسے سمجھ نہیں آئی وہ بول کیا رہا ہے پھر بھی اس کا جواب دیا
"پھر انھوں نے دوبارہ مرجانا تھا ہاہاہاہا۔"
"ایسا کیا ہوا ہے مجھے کیوں دیکھ ۔"
پھر اسے ساری بات سمجھ آئی یہ لڑکا کچھ حد سے زیادہ آروگنٹ اور بدتمیز تھا وہ اگر پاکستان میں ہوتی تو اسفی کی طرح اس کی بھی دُرگت بنادیتی لیکن خاموش رہی ایک تو یہ اجنبی امیر سٹزن تھا دوسرا اس نے اس کی مدد کی تھی چُپ کر کے غصے کا گھونٹ پی کر بنانے لگی
تب تک وہ بہت تیزی سے ٹیبل سیٹ کرچکا تھا معید کی بلی ایبی خوبصورت بلیو آنکھوں والی لیکن تھی سیاہ کالی مافق وہ بھی معید کی طرح شاہانہ انداز میں نیند پوری کر کے کچن میں اپنے ناشتے کے لیے آئی معید ایک سائڈ ٹیبل سیٹ کررہا تھا اور وہ معید کو ڈھونڈتی زارا کے پاس آگئی اور جیسے ہی وہ زارا کی ٹانگوں سے گزری اور پھر ایسا ہوا جیسے ایٹم بم پھٹ چکا ہو زارا چیختی ہوہے کاونٹر کے اوپر چھلانگ لگائی اور اس کالے بلے کو دیکھ کر اور دماغ معاوف ہوگیا ایک تو بلی اوپر سے کالی جن جیسی زارا کو نفرت تھی بلیوں سے اور خاص ڈر بھی بلی شور سے اور اوپر اچھلا تو زارا نے سیدھا چینی دان اسے مارنے لگی جو بلی کو تو نہیں سیدھا تیزی سے آنے والے معید کو لگی جو ایبی کو پکڑنے لگا تھا معید کو وہ جار سیدھا آنکھوں پر لگا تو وہ چکڑا اُٹھا
"بگھائیں اسے کالی بلا کو ۔"
زارا کو معید کے بجائے اپنی پروا تھی اس لیے مزید دیوار کے ساتھ چپکتی ہوئی بولی معید نے اپنی آنکھ پکڑیں اور خنخوار نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا اُٹھا اور سامنے پڑا لمبے سے آئینے والی الماری میں دیکھا تو شاکڈ میں چلا گیا ستیاناس جائے اس لڑکی کا جس نے اس خوبصورت نشیلی آنکھوں کی گرد سیاہی ہی کردی
"یہ کیا کیا تم نے وومن ۔"
"پہلے اس کرم جلی کو بگھائیں ۔"
وہ دیکھ کر رہی تھی جو اب پُرسکون انداز میں اپنی کیٹ واک میں لگی ہوئی تھی معید نے غصے سے بازو پکڑ کر کھینچا وہ درد سے کہرا اُٹھی اور گرنے لگی معید نے اسے پکڑا
"یہ کیا کیا تم نے اور چیخنے کی کیا ضرورت تھی ۔"
پہلے وہ اس کی کالی سوجی آنکھ کو دیکھنے لگی واقی بیچارے کو زیادہ لگ گئی تھی
"وہ بلی چپک گئی تھی ۔"
وہ کمزور آواز میں بولی
"تو کیا بلی نے تم جیسی پانچ فٹ چار انچ افلاطون کو نگل لینا تھا کیا ؟اتنا سا منہ ہے بیچاری کا تم تو قتل کرنے کے در پہ دیں آپ میں ایسے منہ کو لیکر کہاں جاوں گا اُف آج کا دن ہی مہنوس ہے ۔"
وہ اس کا بازو چھوڑ کر پھر اپنی بیچاری معصوم آنکھوں کا جائزہ لینے لگا
"یہ آپ کی سزا ہے اور یہ سزا اللّٰلہ تعالی نے دیں ہے میرا مزاق اُڑانے کی ۔"
وہ تو شروع سے ہی منہ پھٹ تھی کہاں چُپ رہنے والی تھی
"اچھا احسان فراموش عورت ایک تو تم جیسی ڈان کو گھر میں جگہ دیں اوپر سے کپڑے دیں وہ بھی ہزار پہ مسشتمل کپڑے پھر اپنا کمرہ اور اب ناشتہ کروارہا ہوں اور زبان دیکھو اور اپنی حرکتیں ۔"
زارا کا تو ضبط جواب دیں گیا
"میں ڈان نہیں ہو اور نہ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے یہ سب وہ آپ کی کرم جلی ۔"
"پہلی بات خبرادر اس کو کرم جلی کہا وہ میری ایبی ہے ۔"
"نام آپ کو اس کی شکل دیکھ کر رکھنا چاہیے تھا ۔"
"پولیس صحیح تمھاری پیچھے لگی ہوئی ہے ایک نمبر کی ریسسٹ ہو ۔"
"استفغار اللّٰلہ کیڑے پڑے آپ کو کیا اوّل فُول بُک رہے ہیں ۔"
وہ تو غلط ہی سمجھ بیٹھی جبھی سُرخ چہرہ لیے چیخ ہی پڑی اور معید کو دل کیا اس لڑکی کو اٹھا زور سے زمین پہ پٹکھے
"جاہل لڑکی racist جس کا مطلب ہے نسل پرست ۔"
معید اپنی اردو سے امپریس ہوگیا چلو وہ پُرانے ملازمہ کام آئی جنھوں نے اُردو میں ایم اے کیا تھا اور اس کو بھی اپنے لفظ سمجھانے لگی
"تو اس طرح بولے نا اُف آپ نے میرے ہاتھوں سے پھر خون نکال دیا کہاں پھنس گئی ہو میں
وہ تو اپنے ہاتھوں سے نکلتے خون کو دیکھ کر بے بسی سے رو پڑی تو وہ اور پریشان ہوگیا
"او بی بی ویسے پکی پاکستانی ہی لگ رہی ہے آپ جو لڑنے کے بعد ہار مانتا ہوا دیکھ کر رونے لگ جاتی ہے اِدھر ائے دیں اپنا کاکو والا کا تھا ۔"
وہ اس کو روتا ہوا دیکھ کر نرم پڑ گیا اور اس کا سفیدی مائل چھوٹا سا ہاتھ پکڑ کر ٹیبل کی طرف آیا جہاں ناشتہ ٹھنڈا ہوچکا تھا دو پلیٹ میں پڑا چکن اینڈ اوملیٹ سینڈیوچ کے ساتھ دو گلاس اورنج کے جوس تھا
"اچھا اب بینڈیج کررہا ہوں ساری تفصیل بتاو کیا ہو کہاں سے آئی ہو مائی سیلف والے سٹائل سے سُنا دینا ٹھیک ہے ۔"
"میں گلِ زارا ہوں میں ایک لڑکی ہوں اتنا کافی ہے ۔"
وہ خفگی سے بولی
وہ ہنس پڑا
"اچھا آپ لڑکی میں تو سمجھا آپ وہ ہے ؟۔"
"وہ کیا ؟۔"
"خیر کچھ نہیں اب بولے ۔"
*******************