اُن کے کوچے سے مرا روزگزر ہوجائے
عُمر تھوڑی ہو سلیقے سے بسر ہوجائے
مری فریاد میں اتنا تو اثر ہوجائے
آنکھ سے اشک جو ٹپکے تو گہر ہوجائے
اُن کی رحمت ہو تو طوفاں بھی ہو ساحل بہ کنار
وہ مخالف ہوں تو ہر موج بحضور ہوجائے
ملک المحوت! میں حاضر ہوں ، مگر اتنا کرم
اوراِک بار مدینے کا سفر ہو جائے
جالیوں کا رُخِ روشن سے جو اُٹھ جائے نقاب
شبِ ظلمات بھی تابندہ سحر ہوجائے
تیری عظمت کی جھلک دیکھ کے معراج کی رات
کب سے جبریل کی خواہش ہے، بشر ہو جائے
درِ عالی پہ کئی دن سے پڑا ہے کوثر
اب تو آقا کوئی رحمت کی نظر ہوجائے