وہ ابتدائوں کی ابتداہے، وہ انتہائوں کی انتہا ہے
ثنا کرے کوئی اُس کی کیونکر، بشر ہے لیکن خُدا نما ہے
وہ سّرِ تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے ، خود ہی عالم
وجود کی ساری وسعتوں پر محیط ہے جو وہ دائرہ ہے
کوئی نہیں ہے مشیل اُس کا ، کوئی نہیں نظیر اُس کا
وہ شخص بھی ہے ، وہ عکس بھی ہے اور آپ اپنا آئنہ ہے
وہی ہے اوّل ، وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن ، وہی ہے ظاہر
یہ سوچ ہے آگہی سے باہر ، وہ اورکیا ہے جو رہ گیا ہے
اُنہی کا مسکن اُنہی کا گھر ہیں ، اُنہی کی نسبت سے معتبر ہیں
حرم ہو، طیبہ ہو ، میرا دل ہو، یہ سب وہی ایک سلسلہ ہے
ہے خطِ واصل کہ حدّ فاصل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
سلیم عاجزہے فہم کا فل ، وہیں بشر ہے وہیں خُدا ہے