میں جس جانب بھی دیکھوں ، حُسن پیغبر نظر آئے
وہی مرکز نظر آئے ، وہی محور نظر آئے
تیری تعریف کو تو پھول ایسے لفظ لِکھے تھے
جو دیکھا غور سے تو چاند کا غذپر نظر آئے
جو دیکھا چشمِ بینا سے تو تیرا نام لکھا تھا
فلک کی بستیوں میںجتنے بام و در نظر آئے
سُبک رو کشتیوںنے جب بھی تیرے گیت گائے ہیں
بشیبوں میں جو دریا تھے ، بلندی پر نظر آئے
مہک کر پھول شب کو تیرے ہونے کی گواہی دے
چہک کر چاند تیرے حُسن کا مظہر نظر آئے
سمندر کا چلن اپنا کے جس جانب چلا ساجد
خروش آب میں اُس کو ترے تیور نظر آئے