طالب ہوں خُلد کا ، نہ میں حور وقصور کا
شیدا ہوں جان ودل سے جمالِ حضور کا
ہادی ملا ہے وہ کہ جو ہے رحمتِ تمام
احساں یہ خاص ہم پہ ہے رَبّ غفور کا
وردِ زباں ہے شام و سحر آپ ہی کا نام
تذکارِ مصطفیٰ ہے وسیلہ سرور کا
اللہ رے یہ گنبدِ خضرا کی رفعتیں
اِک سلسلہ ہے فرش سے تاعرش نور کا
ہے ذرہ ذرہ اس کا حریف صد آفتاب
طیبہ کی رہگذار کہ زمینہ ہے طور کا
اے عاصیوں کے مونس وہمدم شفیع حشر
کرتا ہوں اعتراف میں اپنے قصور کا
ہے زندگی کی آخری حسرت یہی زہیر
دیکھ آئوں میں بھی روضہ اطہر حضور کا