تیرا نام راحت ِ قلب ہے کہ ہے تو رسولِ انام بھی
تیری ذات پر ہو درود بھی تیری ذات پر ہو سلام بھی
ترا سوز بھی ترا ساز بھی تیرا ذکر بھی ترا نام بھی
مجھے دے رہا ہے قدم قدم نئی زندگی کا پیام بھی
نہ تلاشِ بادِ نسیم کی نہ ہوس ہے باغ نعیم کی
کہ مہک گئی تری یاد سے مری صبح بھی میری شام بھی
تیرا نام دردِ زباں ہوا تو حقیقتوں کا نشاں ملا
جو تیرے خیال میں کھو گئے وہ ہوئے ہیں عرش مقام بھی
جہاں اختیار نظر نہیں جہاں قدسیوں کا گزر نہیں
اس بارگاہِ جمال میں ملا تجھ کو اذنِ خرام بھی
عم دو جہاں سے لیے ہوئے تری بارگاہ میں آگئے
تیری چشم بندہ نواز سے ملے کوئی نور کا جام بھی
تیرا نام لے کے چمن چمن میں بہار بن کے بکھر گیا
وہی تیرا غافلؔ نغمہ گروہی ترا ادنیٰ غلام بھی