کیسے ممکن ہے ہے کہ نعت شہِ والا لکھوں
اِس کے معنی ہیں کوئی تازہ صحیفہ لکھوں
تیرا سایہ تو نہیں پھر بھی شہِ کون ومکاں
رونقِ ارض وسما کو ترا سایہ لکھوں
اس بہانے ہی رہے تیرے کرم کی نسبت
خود کو بیمار لکھوں ، تجھ کو مسیحا لکھوں
معتبریوں بھی محبت کی کہانی ٹھہرے
ہر نفس تیری عنایت کا فسانہ لکھوں
میرے مونس مرے غم خوار مدینے والے
تجھ کو ہر رنج کا ، ہر غم کا مداوا لکھوں
یاد آئی ہے مدینے کی دمِ فکرِ سُخن
کیوں نہ اُن لمحوں کو ظلمت میں اُجالا لکھوں
اِک یہی حُسنِ تصورر مرے فن کا حاصل
خود کو میں محو کروں تیرا سراپا لکھوں