کوئی سلیقہ ہے آرزُو کا ، نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں، کسی کو حالات کیوں بتائیں
تمہی سے مانگیں گے تم ہی دو گے ، تمہارے در سے ہی لو لگی ہے
تجلّیوں کے کفیل تم ہو ، مُرادِ قلب خلیل تم ہو
خُدا کی روشن دلیل تم ہو ، یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے
تمہی ہو روح روانِ ہستی سکوں نظر کادلوں کی مستی
ہے دوجہاں کی بہار تم سے ، تمہی سے پھولوں میں تازگی ہے
نظر نظر رحمتِ سراپا ، ادا ادا غرتِ مسیحا
ضمیرِ مردہ بھی جی اُٹھے ہیں جِدھر تمہاری نظر اُٹھی ہے
عمل کی میرے اساس کیا ہے بجز مذامت کے پاس کیا ہے
رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے
عطا کیا مجھ کو دردِ اُلفت، کہاں تھی یہ پر خطا کی قسمت
میں اِس کرم کے کہاں تھا قابل، حضورکی بندہ پروری ہے
اُنہی کے در سے خُدا ملا ہے ، اُنہی سے اس کا پتا چلا ہے
وہ آئنہ جو خُدا نما ہے ، جمالِ حسنِ حضور ہی ہے
بشیر کہئے ، نذیر کہئے ، اُنہیں سراج منیر کہئے
جو سَر بَسر ہے کلامِ رلی ، وہ میرے آقا کی زندگی ہے
یہی ہے خالد اساسِ رحمت یہی ہے خالد بنائے عظمت
نبی کا عرفان زندگی ہے، نبی کا عرفان بندگی ہے