نظرمیں کعبہ بسا ہوا ہے ، مدینہ دل کی کتاب میں ہے
میں رات دن پڑھ رہاہوں اُس کو ، جو زندگی کے نصاب میں ہے
نفاذِ حق میں یہ دیر کیسی ، حضور کی اتباع کرلو
نظامِ دیں کاتو ذکر سارا، حُدا کی اپنی کتاب میں ہے
وہ نورجس سے ہوا منورّ تمام عالم کا گوشہ گوشہ
اُسی سے ہے آفتاب روشن ، وہ مصفِ ماہتاب میں ہے
حضور کی زُلفِ عنبریں سے مہک رہا ہے تمام عالم
نہ ہے چنیلی میںایسی نکہت ، نہ ایسی خوشبو گلاب میں ہے
یہ کیسا اندازِ فکر بدلا ، یہ کیسا اندازِ ذکر بدلا
دعُا سے پہلے ہی جس کو دیکھو ، وہ صرف فکرِ ثواب میں ہے
ملی جسے خاکِ پائے احمد، چمک گئی سمجھو اُس کی قسمت
بھلا ہوکیوں اُس کو خوف محشر جو آپ کے انتخاب میں ہے
گنہ کی گٹھٹری لدی ہے سر پر ، لرز رہا ہے بدن بھی تھر تھر
نبی کا صدقہ ، خدا کرم کر، یہ تیرا بندہ عذاب میں ہے