پہلا ہے یہی درس دبستان محمد
اللہ کا عرفان ہے عرفان محمد
اس میں بھی ہے کچھ شفقت ور حمت کی وہی شان
ایوانِ خُدا گو نہیں ایوان محمد
چھائی رہی ہر سمت کہالت کی شب تار
جب تک نہ ہوئی صبح درخشانِ محمد
محرومِ ازل کا بھی وہ بھر دیتے ہیں دامن
اے دل، تجھے کی تقسیم مٹا دی
یوں آئے کہ طبقات کی تقسیم مٹادی
کچھ کم نہیں دُنیا پہ یہ احسانِ محمد
کیوں پھر نہ صفیں قیصرو کسریٰ کی اُلٹ دیں
آخر کو وہی ہم ہیں غلامان محمد
روپوشی عصیاں کے لئے حشر میں مل جائے
اے کاش مجھے گوشہ دامانِ محمد
معراجِ سخن اس کو جلیل اپنی میں سمجھوں
ہوجائوں اگر بُلبل بُستان محمد