ہم اہل دل ہیں ، ہمارا یہی عقیدہ ہے
بغیر عشقِ نبی دین سے نہ دُنیا ہے
خِرد سے کہہ دو کہ حُبّ رسول سے پہلے
سمجھ میں آنہ سکے گا کہ کبریا کیا ہے
حرم یقین کی منزل ہے اور مدینے میں
اِسی یقین کو حسنِ یقین بھی ملتا ہے
تمام رنگ عبادت اِسی خیال سے ہیں
یہ اک خیال نہ ہو تو وجود صحراہے
اثر کو حرفِ دُعا کا ہے انتظار یہاں
جومانگتے تو درِ مصطفی سے ملتا ہے
کلام پاک کی آیات میں پس الفاظ
ہمیں حضور کا چہرہ دکھائی دیتا ہے
پڑھو درُود تو ہوتا ہے یہ خیال کہ اب
حجاب فاصلہ وقت اُٹھنے والا ہے
نظر کو حُسن ، خِرد کو شعور ، دل کو سکوں
بقدرِ ظرف اُسی آستاں سے ملتاہے