تووہ سورج کہ دوعالم میں اُجالا تیرا
ہے ازل ہی سے رواں نور کا دریا تیرا
تیرے فیضان سے ہے قریہ ہستی کو ثبات
ساری دُنیا ہے تیری ، سارا زمانہ تیرا
تیری ہی نطق سے ہے زمزمہ پرداز سروش
کچھ نہ کہہ سکتا اگر نام نہ لیتا تیرا
عجز اِدراک سے ہے تیری ثنا کا آغاز
کس کو دعویٰ ہے کہ سمجھا ہے وہ رُتبہ تیرا
بزمِ امکاں کو ملا تیری تجلّی سے فروغ
جلوہ پیدا ہے تیرا، نقش ہویدا تیرا
کس عبادت سے کریں تیرے شمائل کابیاں
کون لکھ سکتا ہے لفظوں میں سراپا تیرا
توں نے انساں کو دیا معنی انساں کاجمال
کس پہ احسان نہیں ہے شسہ والا تیرا
نقش کونین کی صورت ہے تیرا نقش نگیں
لوح محفوظ ہے کہا؟ ایک صحیفہ تیرا
کیسے خوش بخت تھے وہ ، کیسے نصیبوں والے
دیکھ پائے جوکھلی آنکھ سے چہرا تیرا
آج بھی تیری توجہ سے ہے دُنیا روشن
جسم تخلیق میں بھی نور تھا سارا تیرا