تری تلاش میں گردشیں زمانے کی
کہ چابیاں ہیں ترے پاس ہر خزانے کی
ترا ہی قرن عروج قرونِ عالم ہے
خُدا نے کھائی قسم خود ترے زمانے کی
ہر ایک آنکھ کو مقصود ہے ترا دیدار
ترے وجود کی تحسین خود خُدا نے کی
درودِ پاک کی برکت سے ہوگئی آقا
جہاں میں قدر دو بالا غریب جانے کی
مرے بیاں وزباں کی بساط ہی کیا ہے
ترے جمال کی تعریف خود خُدا نے کی
عجم کے طائر مہجور کو ضرورت ہے
ریاضِ طیبہ میں چھوٹے سے آشیانے کی
ترا قلم رہے ہر وقت قبلہ رو ازہر
یہی سبیل ہے اب نیکیاں کمانے کی