نہ کوئی نقش نہ چہرہ دکھائی دیتا ہے
بس اُن کے نور کا دریا دکھائی دیتا ہے
جہاں بھی عکس پڑا اُن کی چشم رحمت کا
وہیں سے چاند نکلتا دکھائی دیتا ہے
ازل کا نور ابد کا شعور بھی ہے وہی
وہ ہر مقام پہ بالا دکھائی دیتا ہے
وہ انقلابِ جلال و جمال کا بانی
ہر ایک عہد کا منشا دکھائی دیتا ہے
وہ آگہی کا، وہی روشنی کا پیغمبر
زمانے بھر کا مسیحا دکھائی دیتا
اُسی کا ذکر ، اُسی کا بیاں اُسی کا نام
ہر ایک دُکھ کا مداو دکھائی دیتا ہے
فضا میں نغمہ صلِ علیٰ کی رِم جھم ہے
حبیب حق سراپا دکھائی دیتا ہے
محیط کون ومکاں جلوہ محمد ہے
کسی کو اس کے سوا کیا دکھائی دیتا ہے
زباں کو تاب نہیں کیا بیاں کرے غافل
وہ اپنی ذات میں جیسا دکھائی دیتا ہے