کاش وہ چہرہ مری آنکھ نے دیکھا ہوتا
مجھ کو تقدیر نے اُسے دور میں لکھا ہوتا
باتیں سنتا میں کبھی ، پوچھتا معنی اُن کے
آپ کے سامنے اصحاب میں بیٹھا ہوتا
آیتیں ابر ہیں اور دشت زمانے سارے
ہم کہاں جاتے؟ اگر پیاس نے گھیرا ہوتا
ہر سیہ رات میں سورج ہیں حدیثیں اُن کی
وہ نہ آئے تو زمانے میں اندھیرا ہوتا
علم کا شہر مجھے عِلم عطا کرتا ہے
حرف ملتے نہ اگر، جہل میں ڈوبا ہوتا
وہ مرے ساتھ ہیں اِس بپھرے ہوئے جنگل میں
ورنہ مرجاتا اگر میں یہاں تنہا ہوتا
فخری جب مسجد نبوی میں اذانیں ہوتیں
میں مدینے سے گزرتا ہوا جھونکا ہوتا