مجھ کو بھی چاہئے اِک نظر آپ کی
میں بھی مِدحت کروں عُمر بھر آپ کے سامنے
دوپہر کا سہ لیس آپ کے سامنے
چاندنی رات دریوزہ گر آپ کی
آپ کی رہ کے زرّے ہیں شمس وقمر
گردش روز وشب نامہ بر آپ کی
قاب قوسین پر جب کمندیں پڑیں
کیوں نہ مسند سجے عرش پر آپ کی
آپ حرفِ شفاعت کی خیرات دیں
میری ساری متاعِ ہُنر آپ کی
آج پھر کوہِ رحمت پہ خطبہ کوئی!
آج اُمّت ہے پھر دربدر آپ کی
کتنی آیات مفہوم میں ڈھل گئی
بات کہنے کو تھی مختصر آپ کی
کاش محسن پہ نگہِ کرم جاپڑے
بھیڑ کتنی ہے دہلیز پر آپ کی