پڑتا نہیں حوصلہ فہم و شعُور کا
کیسے کرے بیاں کوئی رُتبہ حضور کا
ثانی کہاں کہ آپ ہی ثانی ہیں آپ کے
’’سایہ کہاں کہ نور ہی ساہ ہے نور کا‘‘
اُن کا ہر ایک قول ہے معیار بند گی
اُن کا ہر ایک فعل ہے قاتل غرور کا
پیوندِ خاک ہوگیا طاغوت کا نظام
یہ معجزہ تھا آپ کی فکرِ طہور کا
خود ساختہ خدائوں کی بکھری تھیں دَھجیاں
اعجاز تھا یہ آپ کے حُسنِ ظہور کا
اُن کو سکھائے آپ نے اندازِ عاجزی
جن کو تھا ایک عمر سے نشہ عزور کا
اے بے ادب! نہ دعو اے حبّ رسول کر
آئینہ تیری زیست ہے فسق و فجور کا
لکھا ہے عرض نامئہ غم ، آپ کے حضور
للہ! کچھ خیال ، دِل ناصبور کا
عاطف وہیں یہ پُھول عقیدت کے کھلِ اُٹھے
میں نے جہاں بھی نام لیا ہے حضور کا