مستقل سایہ فگن ہم پہ نگاہیں اس کی
اپنے ہالے میں لیے رہتی ہیں باہیں اس کی
مُر تکز ایک ہی سورج پہ ہیں ساری کرنیں
ایک منزل کی طرف جاتی ہیں راہیں اس کی
اپنی اُمّت کے لیے رات کو گریہ اس کا
صبح دم عرش کو چُھو تی ہوئی آہیں اس کی
ساری دنیا بھی اگر ڈالنا چاہے پردے
میرے عصیاں ! تجھے درکار پناہیں اس کی
عمر بھر شاخِ عبادت پہ شگوفے نہ کھِلیں
مہر یاں ہوں نہ اگر ہم پہ نگاہیں اس کی
سفرِ نور میں سب روشنیاں ماند ہوئیں
کہکشاں کیا ہے، فقط دودھیا راہیں اس کی
جس کی تکریم میں مشغول ہے خود ربِ جلیل
کیو ں گنہگار بھی تو صیف نہ چاہیں اس کی