تیرے وصال کے لیے تیز ہے شمعِ آفتاب
ورنہ کسے قبول ہے آتشِ ہجر کا عذاب
پڑتا نہیں زمین پر سایہ مہِ تمام کا
ہوتا نہیں مکان میں کوئی رمید گی کا باب
سچ ہے کہ موجِ نور سے ہوتی ہے عکس کی نمود
تیرے جمال نے کیا شیشہ ء دہر کو گلاب
یو تو نشستِ آب بھی کم تھی قیام کو ٗ مگر
تیرے کلام سے رُکا موجہ رنگ پر حباب
اُترا نہ آب ِ سبز میں عکس ترے وجو د کا
یعنی خیالِ محض ہے میرے بھی آیئنے کا خواب
ڈر تا ہوں منہ نہ موڑ لیں تیرے کرم کی بارشیں
میں نے اگر چُکا دیا پچھلے گناہ کا حساب