صحرا میں چمن خیز نظاروں کی طرح ہیں
وہ رحمتِ عالم ہیں ٗ بہاروں کی طرح ہیں
بے آس بھنور میں ہیں اُمید وں کا سفینہ
ٹوٹی ہوئی کشتی کو کناروں کی طرح ہیں
گمراہ کو دیتے ہیں نشانِ رہِ منزل
ظلمت کدہء شب میں ستاروں کی طرح ہیں
ان ہی سے ضیا بار ہیں احساس کے شعلے
وہ گلشنِ ہستی میں چنا روں کی طرح ہیں
لہجے سے عیاں ہے گُلِ خو شبو کی لَطافت
اور لفظ زر وسیم تاروں کی طرح ہیں
گفتار ہے اک نادر و نایاب خزینہ
کردار میں قرآن کے پاروں کی طرح ہیں
اس مطلعِ خورشید سے خالد دل و جاں بھی
انوار کے بہتے ہوئے دھاروں کی طرح ہیں