فراق موسم کا شاخ تا شاخ سلسلہ ہو
گلاب آنکھوں میں تیری صورت ہو رتجگاہ ہو
ہوا چلے تو ہر ایک پتہ تجھے پکارے
جو چاند نکلے کرن کرن تیرا تذکرہ ہو
صداقتوں کا جواز ڈھونڈوں نہ تیرے بارے
تو میری رگ رگ ریشے ریشے میں بس رہا ہو
قدم اٹھائوں میں جس طرف بھی مگر اے آقا
نظر اٹھائوں تو سامنے میرے گھر تیرا ہو!
جلانے آئے دکھوں کا سورج جو جسم و جاں تو
سروں پہ تیرے کرم کا بادل ہو یا خدا ہو