ہوئی ہے جاری وہ صوتِ ضیا مدینے سے
کہ آفتاب بھی سنو لا گیا مدینے سے
لہو سے اپنے جلائو محبتوں کے چراغ
یہ آرہی ہے برابر صدا مدینے سے
قدم قدم جو چڑھایا گیا صلیبوں پر
لہو لہو ملی مجھ کو بقا مدینے سے
غمون کی دھوپ میں اور ظلمتو ں کے صحرا میں
پنا ہ لاتی رہی ہے ہَوا مدینے سے
کیاہے غور جو انسانیت کے شجرے پر
تو جاکے ملتا ہے یہ سلسلہ مدینے سے
یہ اپنے ذوقِ طلب کا کمال ہے کہ ملے
کسی کو دور ، کسی کو دوا مدینے سے
اسی سے کہ دو ہر اک آرزوئے جاں تم بھی
گزرتی ہوگی یہ بادِ صبا مدینے سے
چلیں کہیں سے بھی صابر خدا کی جانب ہم
گزر کے جاتا ہے ہر راستہ مدینے سے