بندھا ہوا وہ تصور تِرے جمال کا ہے
گزر رہا ہے جو لمحہ ، ہرزار سال کا ہے
مجھے خبر ہے کہ سارے زمانے تیرے ہیں
یہ تذکرہ کسی ماضی کاہے ، نہ حال کاہے
ستارو ں رپر بھی چمکتے ہیں تقشِ پاتیرے
یہ آفتاب بھی سایہ ترے جلال کا ہے
نظر میں جچتی نہیں رنگ رنگ کی دنیا
یہ دل اسیر فقط ایک ہی خیال کا ہے
کسی سے کیسے کہو ں اور کسی سے کیا مانگو ں
میں جانتا ہوں ، پتاتجھ کو میرے حال کا ہے
ہر ایک سمت سے آتی ہے تیری ہی خو شبو
ہر ایک زمانہ ، زمانہ ترے جمال کاہے
قلم لرزتا ہے نعتِ رسول ﷺ لکھتے ہوئے
مگر یہ عجز بھی مظہر کسی کمال کا ہے
بھٹک گیا کسی جنگل میں کارواں جیسے
بہت دنوں سے عجب حال ماہ و سال کاہے